روس اور امریکا شام میں فائر بندی پر راضی
10 ستمبر 2016سوئس شہر جنیوا میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور ان کے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف کے مابین بارہ گھنٹوں تک جاری رہنے والی بات چیت کے بعد اعلان کیا گیا کہ شام میں فائر بندی پر اتفاق ہو گیا ہے اور اگر اس معاہدے اطلاق ہو جاتا ہے تو یہ خونریزی کے خاتمے کے سلسلے میں ایک اہم موڑ ثابت ہو گا، ’’اس طرح ہنگامی حالات سے دوچار افراد کی انسانی بنیادوں پر مدد ممکن ہو سکے گی اور دیرپا امن کے قیام کے لیے بات چیت کے نئے دروازے کھلیں گے۔‘‘
اس معاہدے کے تحت اسلامک اسٹیٹ، النصرہ فرنٹ اور القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف ایک مشترکہ عسکری اتحاد قائم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ دمشق حکومت اور اسد مخالف باغیوں کو بھی اس معاہدے کی شرائط پر سختی سے عمل کرنے کے لیے راضی کرنا ہو گا۔
اس موقع پر روسی وزیر خارجہ لاوروف نے کہا، ’’یہ سمجھوتہ ہمارے نئے تعلقات کی ابتدا ہے۔ ہمارا اس بات پر بھی اتفاق ہو گیا ہے کہ دونوں ممالک کی فضائیہ دہشت گردوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ پہلے کی طرح جاری رکھیں گی۔ اس تناظر میں ہم نے یہ بھی طے کر لیا ہے کہ کون کون سے علاقوں میں یہ کارروائیاں جاری رکھی رہیں گی۔‘‘
یہ معاہدہ کئی مہینوں سے جاری سفارتی کوششوں کا ثمر ہے۔ اگست کی چھبیس تاریخ کے بعد سے کیری اور لاوروف کے مابین چار ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ شام کے موضوع پر ہی اسی ماہ چین میں امریکی صدر باراک اوباما اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھی دو بہ دو ملے تھے۔ پینٹاگون کے سکریٹری پیٹر کُک کے بقول، ’’ہم اگلے دنوں کے دوران اس سمجھوتے پر عمل درآمد کا باریک بینی سے مشاہدے کریں گے۔‘‘
ماہرین کے مطابق اسد حکومت اور باغی گروپوں سے اس معاہدے پر عمل درآمد کرانا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ آج کل ان دونوں کے مابین حلب میں گھمسان کی جنگ جاری ہے۔ آبادی کے لحاظ سے شام کا یہ سب سے بڑا شہر آج کل اُس جنگ کا مرکز بنا ہوا ہے، جو پانچ لاکھ سے زائد شامیوں کی جان لے چکی ہے۔