روانڈا کا قتل عام، پہلی خاتون کو سزا
24 جون 2011روانڈا کے قتل عام کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی عدالت کے حتمی فیصلے کے مطابق سن چورانوے میں Pauline Nyiramasuhuko روانڈا کے فسادات کے دوران نسل کشی اور آبروریزی کی ترغیب دلانے کی مرتکب ہوئی تھیں۔ ان کا مقدمہ چودہ برس تک جاری رہا اور بالآخر آج یعنی جمعہ چوبیس جون کو انہیں سزا سنائی گئی۔
خاندانی اور خواتین کے امور کی سابقہ وزیر نیراما سہوکو پر مجموعی طور پر گیارہ الزامات عائد کیے گئے تھے، جن میں سے سات میں انہیں قصوروار قرار دیا گیا۔ ان میں نسل کشی کے لیے سازش، نسل کشی، انسانیت کے خلاف جرائم اور آبروزیری جیسے الزامات بھی شامل تھے۔ وہ 2001ء سے اپنے دیگر پانچ ساتھیوں کے ہمراہ اقوام متحدہ کی اس خصوصی عدالت میں ہیش ہو رہی تھیں۔
65 سالہ نیراما سہوکو کے ساتھ ان کے پانچوں ساتھیوں کو بھی روانڈا کی نسل کشی میں ذمہ دار قرار دیتے ہوئے سزائےعمر قید دی گئی۔ ان پانچ افراد میں نیراما سہوکو کے بیٹے Arsene Shalom Ntahobali بھی شامل ہیں۔ پالین نیراما سہوکو کو 1997ء میں کینیا سے گرفتار کر کے تنزانیہ کے شہر Arusha منتقل کر دیا گیا تھا۔
تنزانیہ میں واقع اس خصوصی عدالت کے وکیل استغاثہ Holo Makwaia نے ان تمام ملزمان کے لیے سخت ترین سزا کی درخواست کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان ملزمان نے Butare کے علاقے میں ٹوٹسی نسل کے باشندوں کی نسل کشی کی اور ان کی نیت تھی کہ اس علاقے میں مجموعی یا جزوی طور پر ٹوٹسی نسل کے باشندوں کا خاتمہ کر دیا جائے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے 1994ء میں روانڈا کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت ICTR کے قیام کی منظوری دی تھی۔ اس کا مقصد روانڈا میں نسل کشی کے واقعات کی تحقیقات کرنا ہے۔ اس افریقی ملک میں 1994ء میں ہوٹو اور ٹوٹسی قبائل کے مابین پرتشدد فسادات کا آغاز ہوا تھا۔ اس دوران سو دنوں کے دوران کم ازکم 8 لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ ان ہلاک شدگان میں زیادہ تر اقلیتی نسل ٹوٹسی سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان