رمادی: داعش کے قبضے کے خاتمے کے لیے شیعہ ملیشیا گروہ طلب
18 مئی 2015اسلامک اسٹیٹ یا داعش کی طرف سے عراق کے سب سے بڑے صوبے انبار کے دارالحکومت رمادی پر قبضہ آئی ایس کے خلاف آپریشن کے بعد سے سب سے بڑا دھچکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آئی ایس کی اس ایک بڑی کامیابی کے بعد بغداد حکومت کے عسکری کامیابیوں کے دعوے ہوا میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ اب تک عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی، امریکا اور سُنی صوبے انبار کے حکام رمادی میں ایران کے حمایت یافتہ شیعہ گروپوں کی تعیناتی سے ہچکچاتے رہے ہیں۔ آج پیر اٹھارہ مئی کے روز شیعہ ملیشیا گروپوں کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ گزشتہ چند روز میں ہونے والی لڑائی نے ثابت کر دیا ہے کہ حکومت ’الحشد الشعبی‘ کے بغیر داعش کو روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
عراق میں ’الحشد الشعبی‘ نامی تنظیم مختلف شیعہ رضاکار جنگجو گروپوں کے اتحاد سے بنی ہے۔ الحشد الشعبی کے مرکزی رہنما اور بدر ملیشیا گروپ کے سربراہ ہادی العامر کا کہنا ہے کہ انبار میں حکام کو ان کی پیشکش آج سے بہت پہلے ہی قبول کر لینی چاہیے تھی۔ ان کا بدر ٹی وی پر تقریر کرتے ہوئے کہنا تھا کہ رمادی میں شکست کی ذمہ داری وہاں کی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ اس قیادت نے اپنے ہی لوگوں کے دفاع کے لیے الحشد الشعبی کی شرکت پر اعتراض کیا تھا۔
اسی دوران مختلف مسلح شیعہ گروپوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ انبار میں جمع ہو چکے ہیں اور رمادی کے قریب ہیں تاکہ شہر کے نئے’ قابضین کو مصروف‘ رکھا جا سکے۔ شیعہ تنظیم کتائب حزب اللہ کے ایک ترجمان کے مطابق ان کے گروپ کے عسکریت پسند تین مختلف سمتوں سے رمادی کے محاذ میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔ اس تنظیم کے ترجمان جعفر الحسینی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’کل انشاء اللہ ہم مدد کے لیے انبار اور رمادی کی طرف پیش قدمی شروع کر دیں گے اور اس آپریشن میں حصہ لیں گے، جو علاقے سے داعش کے خاتمے کے لیے شروع کیا جا رہا ہے۔‘‘
رمادی شہر دارالحکومت بغداد سے تقریباﹰ ایک سو کلومیٹر مغرب میں واقع ہے اور گزشتہ روز عراق کی محصور فوج نے وہاں موجود اپنی آخری چوکی بھی خالی کر دی تھی۔ شدت پسند تنظیم داعش صرف تین روزہ لڑائی کے بعد رمادی کی تمام اہم سرکاری عمارتوں پر اپنے سیاہ رنگ کے جھنڈے لہرانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ انبار میں صوبائی حکام کے مطابق ان تین دنوں میں وہاں کم از کم پانچ سو افراد ہلاک ہوئے جبکہ ہزاروں خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں حکومتی فوجی اور عام شہری دونوں ہی شامل ہیں۔ انبار کے گورنر کے ترجمان اور مشیر مہند حیمور کا کہنا تھا کہ شہر کے کچھ حصوں میں ابھی تک وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔