دہشت گردی: طالبان ملوث نہیں تو پھر کون؟
5 فروری 2014ان مذاکرات میں شریک ایک اہم ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان مذاکرات کی بحالی اور غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے بیک چینل ڈپلومیسی بھی شروع کی گئی ہے اور یہ انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ دونوں فریقوں نے دوبارہ ملنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ یہ ملاقات اگلے چند روز میں اسلام آباد میں عمل میں آ سکتی ہے۔
آج بدھ کو حکومتی کمیٹی کے رابطہ کار عرفان صدیقی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ ملاقات کے لیے تیار ہیں جبکہ طالبان کی طرف سے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ وہ اس ملاقات کے لیے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مشورے کر رہے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں بھی جاری ہیں، اور غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان نہ صرف ان وارداتوں سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ ان کی مذمت بھی کر رہے ہیں۔ ایسے میں پاکستان میں ہر کوئی یہ سوچ رہا ہے کہ اگر یہ بم دھماکے طالبان نہیں کر رہے ہیں تو پھر ان وارداتوں میں کون ملوث ہو سکتا ہے۔
سکیورٹی امور پر نگاہ رکھنے والے ایک ماہر بریگیڈیئر ریٹائرڈ فاروق حمید کہتے ہیں کہ ان واقعات کے پیچھے غیر ملکی خفیہ اداروں کے ایجنٹ یا پھر طالبان کے ایسے ناراض گروہوں کا ہاتھ ہو سکتا ہے، جو حکومت اور طالبان کے درمیان بات چیت کے مخالف ہوں۔
ایک اور تجزیہ نگار عامرخاکوانی کے مطابق ان وارداتوں میں فرقہ ورانہ عناصر کے ملوث ہونے کے امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا، جبکہ سینئرصحافی میاں سیف الرحمان کا کہنا ہے کہ خفیہ کارروائیاں کرنے والوں کے باہمی رابطے ہوتے ہیں اور طالبان اس بارے میں علم ضرور رکھتے ہوں گے۔ ان کے بقول اب سوال یہ ہے کہ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے دو درجن سے زائد ادارے ان واقعات میں ملوث ملکی یا غیر ملکی ہاتھوں کو بے نقاب کرنے میں ناکام کیوں ہیں؟
میاں سیف الرحمان کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان وارداتوں میں باہر کا اسلحہ استعمال ہو رہا ہے، اس لیےاب اہم فیصلے کرنے، عوام کو معلومات دینے اور ریاستی اداروں کی پالیسیوں کو ہم آہنگ کر کے ایکشن لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بد امنی پھیلانے والے ان دہشت گردوں کو پکڑنا ہو گا۔
فاروق حمید کے مطابق مذاکرات کے پہلے مرحلے میں اگر دونوں طرف سے فائر بندی کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو اس سے اعتماد سازی میں مدد ملے گی اور یہ پتہ لگانا آسان ہو گا کہ کون امن چاہتا ہے اور کون امن نہیں چاہتا۔ ان کے مطابق ان مذاکرات کے نتیجے میں پاکستانی آئین سے ماورا مطالبات کے حامی عناصر کو الگ تھلگ اور غیر اہم بنایا جا سکے گا۔
تجزیہ نگارعامر خاکوانی کے مطابق دنیا بھر میں ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں سے بات چیت کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ ان کے بقول ایک کالعدم تنظیم میں شامل امن پسند لوگوں سے بات چیت کر کے امن بحال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہ مذاکرات طالبان کو قانونی حیثیت دینے کے لیے نہیں بلکہ انہیں ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کرنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔ ان کے خیال میں وزیر اعظم پاکستان اور طالبان کی اعلٰی سطح کی نو رکنی کمیٹی کی طرف سے مذاکرات کی نگرانی سے توقع کی جانی چاہیے کہ اس کے فیصلوں پر عملدرآمد بھی ہو سکے گا۔ عامر خاکوانی کی رائے میں ان مذاکرات کو پہلے مرحلے میں میڈیا سے دور رکھ کر بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں کیونکہ بعض اوقات میڈیا رپورٹس فریقین میں غلط فہمیاں پھیلانے کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔