دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف متحد ہو: جرمنی، فرانس
21 ستمبر 2015بین الاقوامی ماحولیاتی کانفرنس کا انعقاد رواں برس نومبر کے اواخر میں فرانس کے دارالحکومت پیرس میں کیا جا رہا ہے۔ جرمنی اور فرانس کی کوشش ہے کہ اس کانفرنس میں زمینی درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے عالمی برادری کسی نہ کسی بین الاقوامی معاہدے تک پہنچ جائے۔ جرمنی کے وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر اور ان کے فرانسیسی ہم منصب لوراں فابیوس بنگلہ دیش کے دورے پر ہیں، جہاں دونوں وزرائے خارجہ کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دنیا کو اس بات پر متفق ہو جانا چاہیے کہ زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود کیا جائے۔
اس موقع پر جرمن وزیر خارجہ فرانک والٹر شٹائن مائر کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ موجودہ بحرانوں کے باجود دنیا کو گلوبل وارمنگ جیسے ’’طویل المدتی خطرات‘‘ کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم سب کے لیے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے زمینی درجہ حرارت کو دو سینٹی گریڈ تک محدود کرنا انتہائی ضروری ہے۔‘‘
ان کا نئے سیلابوں اور اس کے نتیجے میں نقل مکانی کے خطرات سے خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’موسمیاتی تبدیلیاں کسی سرحد کو نہیں جانتی۔ ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ جب موسمیاتی تبدیلیاں بنیادی ضروریات زندگی کو تباہ کر دیتی ہیں تو لاکھوں انسان اپنے آبائی علاقے چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘‘
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جو آج بھی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس ملک میں زمینی کٹاؤ کے خطرات قدرتی طور پر موجود ہیں تاہم زمینی درجہ حرارت میں اضافے اور ماحولیاتی آلودگی کے نتیجے میں یہ خطرات کئی گنا بڑھ گئے ہیں۔ سائنسدانوں کی پشین گوئیوں کے مطابق آئندہ برسوں میں سطح سمندر میں اضافہ ہوتا جائے گا اور بنگلہ دیش اس سے براہ راست متاثر ہوگا۔
سیلابوں کے نتیجے میں اس ملک کے خشک زمینی علاقے پانی میں ڈوبتے جائیں گے۔ ایک سو چونسٹھ ملین آبادی والے اس گنجان آباد ملک کی نصف آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے، جو سطح سمندر سے بارہ میٹر سے بھی کم بلندی پر واقع ہیں۔ بنگلہ دیش کی مٹی ریتلی ہے اور اُس میں چٹانیں نہ ہونے کے برابر ہیں، جو کہ پانی کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔ ایک ایک میٹر کر کے پانی خشکی کو نگلتا چلا جا رہا ہے۔