دمشق میں دو بڑے بم حملوں میں کم از کم چھیالیس ہلاکتیں
11 مارچ 2017دمشق سے ہفتہ گیارہ مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے بتایا کہ آج ہفتے کو بعد دوپہر یہ دونوں بم حملے تقریباﹰ بیک وقت اور بظاہر باہمی طور پر مربوط انداز میں کیے گئے۔
یہ حملے دمشق شہر کے وسط میں الشغور نامی علاقے میں شیعہ مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل ایک مزار کے قریب کیے گئے۔ ابھی تک اس بارے میں کوئی حتمی حقائق سامنے نہیں آئے تاہم سیریئن آبزرویٹری نے بتایا ہے کہ ان میں سے ایک حملہ ایک بم دھماکے کی صورت میں کیا گیا جب کہ دوسرا ایک خود کش حملہ آور کی کارروائی تھا۔
شام کی سرکاری نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ یہ دونوں دھماکے الشغور میں باب الصغیر نامی مقام کے قریب کیے گئے۔ شامی خبر رساں ادارے نے بتایا کہ ان دھماکوں کے فوراﹰ بعد ہی تینتیس افراد کی ہلاکت اور سو سے زائد کے زخمی ہونے کی تصدیق ہو گئی تھی، جس کے بعد ہلاکتوں کی تعداد بڑھنا شروع ہو گئی۔ ایک مقامی پولیس اہلکار نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا کہ ان بم دھماکوں کا ہدف وہ شیعہ مسلم زائرین تھے، جو اس وقت ایک قریبی مزار تک جانے کے لیے وہاں پہنچنے والی بسوں سے اتر رہے تھے۔ شامی پولیس کے مطابق ان زائرین کا تعلق ایران اور عراق سے تھا۔
داعش کے خلاف ٹرمپ کے ٹھوس اقدامات تاحال نظر نہیں آئے، اسد
شام میں امریکی فوجی تعینات کر دیے گئے
حمص میں خودکش حملے، ہلاکتوں کی تعداد 42 تک پہنچ گئی
اس امر کی تصدیق ان بم دھماکوں کے کچھ ہی دیر بعد آج بغداد میں عراق کے سرکاری ٹیلی وژن نے بھی کر دی، جس نے اپنی نشریات میں بتایا کہ مرنے والے 46 میں سے 40 افراد عراقی شیعہ زائرین تھے۔ عراقی ٹیلی وژن نے بغداد میں ملکی وزارت خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ زخمیوں میں بھی 120 سے زائد عراقی باشندے شامل ہیں۔
روئٹرز کے مطابق آخری خبریں آنے تک کسی بھی عسکریت پسند گروپ نے ان بم حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی تھی۔ شام میں مارچ دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران اب تک ملکی دارالحکومت دمشق میں کئی بہت خونریز حملے کیے جا چکے ہیں۔ وہاں ایسے دو آخری بڑے حملے گزشتہ برس نومبر میں کیے گئے تھے، جن میں بیس افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ دونوں حملے دمشق شہر کے جنوبی حصے میں سیدہ زینب کہلانے والے ایک زیادہ تر شیعہ آبادی والے علاقے میں کیے گئے تھے اور ان کی ذمے داری سنی شدت پسندوں کی جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نے قبول کر لی تھی۔