دبئی میں 86 منزلہ عمارت شعلوں کی لپیٹ میں
4 اگست 2017خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے دبئی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ 86 منزلہ ’’ٹارچ ٹاور‘‘ کی 40 منزلیں ایک جانب سے آگ کی لپیٹ میں آ گئیں۔ عمارت کے رہائشیوں کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب مقامی وقت کے مطابق ایک بجے کے بعد اس عمارت میں آگ بھڑک اٹھی۔
دبئی کے سول ڈیفنس محکمے کی طرف سے صبح 3:30 کے قریب اعلان کیا گیا کہ آگ بجھانے والے عملے نے آگ پر قابو پا لیا ہے اور اس دوران کسی کے زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ دبئی کے سرکاری میڈیا دفتر کی طرف سے جاری ہونے والے ایک ٹوئیٹر پیغام کے مطابق، ’’درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے۔‘‘
گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران یہ دوسرا واقعہ ہے کہ دبئی میں 1,100 فٹ سے بلند کسی عمارت میں آگ لگ گئی ہے۔ قبل ازیں دبئی کے معروف علاقے مرینا میں واقع ایک رہائشی ٹاور میں فروری 2015ء میں آگ لگ گئی تھی۔ اس واقعے میں بھی کسی ہلاکت کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔
آج جمعہ چار اگست کی صبح دبئی حکام نے میڈیا کو ایک تصویر فراہم کی جس میں یہ بلند عمارت آگ کے سبب سیاہ نظر آ رہی ہے تاہم اس میں کہیں شعلے نظر نہیں آ رہے۔ حکام کی طرف سے بتایا گیا کہ اب اُن لوگوں کو ٹھکانہ فراہم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں جو اس آگ سے متاثر ہوئے ہیں۔ دبئی پولیس نے عمارت کے ارد گرد کئی بلاکس تک کا علاقہ لوگوں سے خالی کرا لیا تاکہ متاثرہ عمارت سے گرنے والے ملبے سے کوئی نقصان نہ ہو۔
متحدہ عرب امارات میں حالیہ کچھ برسوں کے دوران کئی بلند عمارات میں آگ لگنے کے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ انہی میں 2016ء میں نئے سال کے آغاز پر دبئی میں ایک 63 منزلہ ہوٹل میں لگنے والی آگ بھی شامل ہے۔ تاہم اس ہوٹل میں لگنے والی آگ سمیت کسی بھی واقعے میں لوگوں کو کوئی بڑا نقصان نہیں پہنچا۔
رواں برس کے آغاز میں دبئی نے نئے حفاظتی قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں عمارت کے بیرونی حصے پر لگے ایسے پینلز کو تبدیل کرنا بھی شامل ہے جو بہت تیزی سے آگ پکڑ لیتے ہیں۔ حکام قبل ازیں یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ متحدہ عرب امارت میں کم از کم 30 ہزار عمارتیں ایسی ہیں جن کی بیرونی جانب ایسے پینلز لگے ہیں جن کے بارے میں سیفٹی ماہرین کا خیال ہے کہ وہ آگ بھڑکانے میں مدد کرتے ہیں۔
رواں برس جون میں لندن کی ایک بلند عمارت میں لگنے والی آگ کے سبب کم از کم 80 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جس کے بعد برطانوی حکام نے دیگر عمارات میں سیفٹی کے اقدامات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔