داعش کے جہادیوں کو ملنے والی پُرکشش مراعات
26 مئی 2015شامی جنگ کے اگلے محاذوں سے دور ہنی مون پر جانا محبت کے لیے مختصر سا وقت ہے۔ شامی جنگجو ابو بلال الحُمصی کی کئی ماہ کی آن لائن چیٹنگ کے بعد اپنی تیونسی بیوی سے پہلی ملاقات ہوئی ہے۔
ابو بلال نے ابھی حال ہی میں شادی کی ہے اور اب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ شامی شہر الرقہ میں ہنی مون کے دن گزار رہا ہے۔ ابوبلال کو بہترین رہائش فراہم کی گئی ہے، ان کے کھانے کا انتظام شہر کے بہترین ہوٹل میں کیا جاتا ہے اور شام کو وہ دریائے فرات کے کنارے چہل قدمی کرتے ہوئے آئس کریم کھاتے ہیں۔
ہنی مون کے پیسے داعش کی طرف سے شادی کے بونس کے طور پر ادا کیے گئے ہیں۔ داعش کے سماجی دفتر نے اس جوڑے کو پندرہ سو ڈالر اضافی دیے ہیں تاکہ یہ دونوں میاں بیوی اچھی زندگی کا آغاز کر سکیں۔ داعش نے شامی شہر الرقہ پر اٹھارہ ماہ پہلے قبضہ کیا تھا۔ اس شہر کی سڑکوں پر متعدد چیک پوسٹیں قائم کی جا چکی ہیں، جہاں ہر آنے جانے والے پر نظر رکھی جاتی ہے۔ داعش (اسلامک اسٹیٹ) دنیا میں اپنے مظالم کی وجہ سے مشہور ہے لیکن اپنے حامیوں کے لیے اس نے متعدد امدادی منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔
اسی طرح داعش نے اپنے ہزاروں جہادی مرد و خواتین کے لیے ایک فلاحی نظام قائم کر رکھا ہے، جو دنیا بھر کے جہادیوں کے لیے کشش کا باعث بن رہا ہے۔ یاد رہے کی ماضی میں داعش کے خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی نے نہ صرف جنگجوؤں بلکہ ڈاکٹروں، انجینئروں، منتظمین اور دیگر ماہرین کو شام اور عراق نقل مکانی کرنے کی دعوت دی تھی۔ نیوز ایجنسی اے پی گزشتہ تین سال سے ابو بلال الحُمصی سے رابطے میں ہے اور اس کے متعدد انٹریوز کر چکی ہے۔ اس نیوز ایجنسی کی طرف سے داعش کے طرز حکومت اور اس کے جہادیوں کی ذاتی زندگیوں پر خصوصی رپورٹوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے اور یہ رپورٹ بھی اسی سلسلے کا ایک حصہ ہے۔
ابو بلال کا کہنا تھا، ’’ یہ صرف جنگ نہیں لڑی جا رہی۔ ادارے قائم کیے جا چکے ہیں، وہاں کی شہری آبادی ہے اور وسیع علاقے ہیں، جن کی انچارج داعش ہے۔ نقل مکانی کر کے آنے والوں کی شادیوں کا انتظام کیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام عناصر پر نظر رکھے۔‘‘
الرقہ پر شدت پسندوں کی حکومت کے بعد سے وہاں آئی ایس کی نئی اشرافیہ کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ شاندار گھر اور اپارٹمنٹس جو کبھی شامی صدر بشار الاسد حکومت کی ملکیت تھے، اب داعش کے حکمران طبقے کے ہاتھ میں ہیں۔ داعش کے مخالف کام کرنے والے میڈیا کے ایک رکن کے مطابق زیادہ تر مراعات ان عراقیوں کو دی گئی ہیں، جو سینئر فوجی کمانڈر کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اس اہلکار کے مطابق ایک مکمل شہر جہادی کمانڈر ابو ابراہیم الرقاوی کے نام پر ہے۔
کاریں اور دیگر سماجی مراعات
الرقہ کا وہ علاقہ جو جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے کے لیے مختص کیا گیا تھا، اب ملٹری زون میں تبدیل ہو چکا ہے اور وہاں کسی بھی عام شہری کا داخلہ ممنوع ہے۔ داعش کے اعلیٰ درجے کے کمانڈروں کو کاریں اور ایندھن مفت فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح آئی ایس کے جنگجوؤں سے سٹی ہسپتال میں صرف ایک مرتبہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ اسی طرح انگلش بولنے والے جہادیوں کے بچوں کے لیے انگلش میڈیم اسکول کھولے گئے ہیں جبکہ داعش کے زیر کنٹرول شامی اور عراقی علاقوں میں بس سروس بھی مہیا کی جاتی ہے۔
’’الرقہ شام کا نیویارک‘‘
الرقہ شہر میں موجود زیادہ تر انٹرنیٹ کیفے داعش کے سینئر کمانڈر الرقاوی کی ملکیت ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کیفے سٹیلائیٹ کے ذریعے چلائے جاتے ہیں الرقاوی یہ انٹرنیٹ سروس شہر کے دیگر رہائشیوں کو بھی فراہم کرتا ہے۔ الرقاوی کا کہنا تھا، ’’شہر کی سپر مارکیٹس میں اچھا خاصا ذخیرہ موجود ہے لیکن لگژری اشیا، نوٹیلا وغیرہ صرف آئی ایس فائٹرز ہی خرید سکتے ہیں۔‘‘ الرقاوی کا مزید کہنا تھا، ’’یہ شہر مستحکم ہے اور وہ تمام سہولتیں موجود ہیں، جن کی کسی کو ضرورت ہو سکتی ہے۔ اب الرقہ خلافت کا نیا نیو یارک ہے۔‘‘
شادی میں مدد
جنگجوؤں کی شادیوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ ماہانہ وظیفے کے ساتھ ساتھ شادی کے موقع پر اضافی پانچ سو ڈالر فراہم کیے جاتے ہیں۔ داعش کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے ایمن التمیمی کا کہنا ہے کہ جب عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کیا گیا تو وہاں سب سے پہلے شرعی عدالتیں قائم کی گئیں اور ان عدالتوں کا ایک بنیادی کام یہ تھا کہ جنگجوؤں کا ’’سرکاری طور پر شادی کرنے کا سرٹیفیکیٹ فراہم کیا جائے۔‘‘ اٹھائیس سالہ ابو بلال کو اضافی بونس اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ اس کی اہلیہ ام بلال ایک ڈاکٹر ہے اور چار زبانیں بول سکتی ہے۔ ابو بلال کے مطابق اس کی بیوی کی خدمات بھی ’خلافت‘ کے لیے ہوں گی۔
ابوبلال کا اپنی تیونسی اہلیہ سے بات چیت کا آغاز سوشل میڈیا سے ہوا تھا، جہاں ابوبلال نے اپنے شہر حمص میں جاری جنگ کے بارے میں پوسٹیں کیں اور ام بلال ان سے متاثر ہو گئی۔ ابوبلال ایک آئی ٹی ایکسپرٹ ہے اور خانہ جنگی کے دوران سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے لکھتا رہا ہے۔ شادی کے لیے ام بلال کئی دیگر لڑکیوں کے ہمراہ پہلے نائجیریا ، وہاں سے ترکی اور پھر الرقہ پہنچی۔
خواتین کی پولیس
شام پہنچنے والی نوجوان لڑکیوں کو سب سے پہلے خواتین کے لیے بنائے گئے گیسٹ ہاؤس میں رکھا جاتا ہے۔ ایسے ہی گیسٹ ہاؤس کو آئی ایس کی خواتین پولیس اہلکاروں کے ہیڈکوارٹرز کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ داعش والے ان کو خانسہ اسکواڈ کہتے ہیں۔ الرقاوی کا ان ہیڈکوارٹرز کے بارے میں کہنا تھا، ’’ یہ لگثرری گھر ہیں، باغیچے ساتھ ہیں، اے سی لگے ہوئے ہیں اور اعلیٰ معیار کا فرنیچر بھی موجود ہے۔ یہ گھر کسی یورپی گھر سے کم نہیں ہیں۔‘‘
بچوں کے لیے بونس
داعش کی طرف اپنے جنگجوؤں کو بچے کی پیدائش پر بھی چائلڈ بونس دیا جاتا ہے۔ ہر بچے کی پیدائش پر چار سو ڈالر بونس فراہم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی جہادی کی اہلیہ حاملہ ہے، تو اس جہادی اور اس کی اہلیہ کو فی کس پچاس ڈالر ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح بچوں کو کپڑے اور یونیفارم الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔ کچھ جہادیوں کو گھریلو ملازمین اور ماہانہ فوڈ باسکٹ بھی فراہم کی جاتی ہے۔ الحمصی کے مطابق یہ ’ریاست‘ کی ذمہ داری ہے کہ اگلے محاذوں پر لڑنے والے مجاہدین کی فیملی اور بچوں کا خیال رکھے۔