1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اسلامک اسٹیٹ کے لیے ابھی مشکل، مبصرین

افسر اعوان13 جنوری 2015

ہفتہ 10 جنوری کو منظر عام پر آنے والی ایک ویڈیو میں تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان شاہد اللہ شاہد کو دیگر جنگجوؤں کے ساتھ دکھایا گیا جو دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1EJ9N
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

اس ویڈیو میں شاہد اللہ شاہد اور دیگر درجنوں جنگجوؤں کو دکھایا گیا ہے۔ شاہد کی طرف سے گزشتہ برس بھی اس وقت اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا اعلان سامنے آیا تھا جب وہ طالبان کے ترجمان تھے۔ اس کے بعد طالبان کی جانب سے انہیں الگ کر دیا گیا۔

ٹوئٹر اور جہادی ویب سائٹس پر جاری کی جانے والی اس ویڈیو میں شاہد اللہ شاہد اور دیگر جنگجوؤں کو اسلامک اسٹیٹ یا داعش کے جھنڈوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ شاہد اللہ شاہد کو اس ویڈیو میں کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ان کے ساتھ موجود افراد فرداﹰ فرداﹰ داعش میں شمولیت کا اعلان کر چکے ہیں اور اب وہ سب مل کر اس کا حلف اٹھا رہے ہیں۔

اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ایسے سوالات کا اٹھنا ضروری امر ہے کہ کیا داعش پاکستان میں اپنی موجودگی بڑھا رہی ہے یا بڑھا سکتی ہے۔ تاہم پاکستان کے ایک نامور سینیئر صحافی اور قبائلی علاقوں سے متعلق معاملات پر اتھارٹی سمجھے جانے والے تجزیہ کار رحیم اللہ یوسف زئی داعش کو پاکستان کے لیے فی الحال کوئی بڑا خطرہ نہیں سمجھتے۔

Pakistan Taliban-Sprecher Shahidullah Shahid
شاہد کی طرف سے گزشتہ برس بھی اس وقت اسلامک اسٹیٹ میں شمولیت کا اعلان سامنے آیا تھا جب وہ طالبان کے ترجمان تھےتصویر: picture-alliance/dpa

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’شاہد اللہ شاہد نے چند ماہ پہلے بھی جب وہ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان تھے، اعلان کیا تھا کہ وہ تحریک طالبان پاکستان کے پانچ دیگر کمانڈر داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ طالبان کو چھوڑ رہے ہیں یا القاعدہ کے خلاف ہو گئے ہیں۔ اب تو وہ ترجمان بھی نہیں ہیں۔ اس لیے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ پہلے بھی پاکستان کی ریاست کے خلاف جنگ کر رہے تھے اب بھی یہی کریں گے۔‘‘

رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق، ’’پاکستانی حکومت کی طرف سے آپریشن کے باعث طالبان اور دیگر گروپوں کے قبضے میں جو علاقے تھے وہ اب نکل گئے ہیں اور ان کے کئی کمانڈرز مارے بھی گئے ہیں جو ان کی طاقت میں کمی کا باعث بنا ہے۔ اس لیے بھی ان لوگوں کے لیے انتہائی مشکل ہو گا کہ وہ نئے لوگوں کو پناہ دے سکیں اور فعال طور پر حملے کر سکیں۔‘‘

یوسفزئی کے مطابق اگر ان حالات میں داعش اگر پاکستان میں اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش بھی کی تو اس کی کوئی زیادہ پزیرائی مشکل ہو گی: ’’دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ پاکستان سے کئی لوگوں کے داعش سے وابستگی کے اعلانات کے باوجود اسلامک اسٹیٹ کی مرکزی قیادت کی طرف سے نہ تو کوئی بیان سامنے آیا ہے اور نہ ہی ایسے کسی اعلان کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔ پھر ابھی تک ایسا کوئی حملہ بھی نہیں ہوا پاکستان میں جس کا دعویٰ داعش نے کیا ہو۔‘‘

سابق پاکستانی بیوروکریٹ اور قبائلی علاقوں اور پاک افغان تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ماہر رستم شاہ مہمند داعش کا پاکستان میں کوئی مستقبل نہیں دیکھتے: ’’پاکستان میں پہلے ہی بہت سی تنظیمیں موجود ہیں اور حقیقاﹰ لوگ بھی اب تنگ آ چکے ہیں اور وہ صورتحال میں بہتری چاہتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر کوئی کسی ایسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے تو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اس کی کچھ زیادہ پزیرائی نہیں ہو گی۔‘‘

مہمند کے بقول، ’’کوئی ایسی تنظیم پاکستان میں کامیاب ہو ہی نہیں سکتی جس کی لیڈر شپ عراق یا شام میں موجود ہو۔ اس کی ایک وجہ تو فاصلوں کے باعث رابطوں اور کمانڈ کے حوالے سے مسائل ہیں تو دوسری وجہ اس وقت پاکستانی فوج کی جانب سے عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن بھی ہے۔ ان حالات میں جب پہلے سے یہاں موجود گروپ اپنی جان بچانے کی فکر میں ہیں وہاں داعش جیسی نئی تنظیم کے لیے قدم جمانا ناممکن دکھائی دیتا ہے۔‘‘

قبائلی معاملات پر مہارت رکھنے والے رستم شاہ مہمند کے مطابق چونکہ پاکستان میں صورتحال عراق یا شام جیسی نہیں ہے اس لیے وہاں کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے والی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کا یہاں قدم جمانا آسان کام نہیں ہے۔

رحیم اللہ یوسف زئی کے مطابق پاکستان سے اگر کچھ لوگ شامل ہوئے بھی ہیں تو یہ وہی ہیں جو پہلے بھی ریاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہاں البتہ شام یا عراق سے لوگ آ جاتے ہیں پاکستان یا پھر موجودہ عسکریت پسندوں کے علاوہ کوئی نئے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں تو صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں کہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہے اس لیے فوری طور پر کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آتا۔

ہفتہ 10 جنوری کو جاری کی جانے والی ویڈیو میں شاہد اللہ شاہد نے اعلان کیا ہے کہ 10 مختلف عسکری گروپوں نے پاکستانی علاقے اورکزئی ایجنسی سے تعلق رکھنے والے حافظ سعید خان کو افغانستان اور پاکستان کے لیے اسلامک اسٹیٹ کا نیا سربراہ چنا ہے۔

اس ویڈیو میں وردی میں موجود ایک شخص کو قتل کرتے بھی دکھایا گیا ہے جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ایک پاکستانی فوجی تھا۔

اسلامک اسٹیٹ نے عراق اور شام کے بڑے علاقے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اس تنظیم نے مقبوضہ علاقوں میں ابوبکر البغدادی کی ’خلافت‘ میں اپنی مملکت بھی قائم کر رکھی ہے۔