کچھ دانشوروں کے مطابق خواتین کو اپنا معیار کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ہر رشتے میں مین میخ نکالنے سے گریز کرنا چاہیے اور بس آدمی کی شرافت دیکھ کر اس سے شادی کر لینی چاہیے۔ لیکن، شرافت سے نہ گھر چلتا ہے نہ زندگی۔ اور مردوں کی شرافت کا حال خواتین سے پوچھیں۔ مردوں کا شریف عورت کا خبیث ہوتا ہے۔
آج کی عورت پڑھی لکھی، باشعور اور ہنر مند ہے۔ وہ ایسے ہی کسی بھی آدمی کا ساتھ قبول نہیں کر سکتی۔ اسے ایسا آدمی چاہیے، جو اس سے مطابقت رکھتا ہو، اسے تبدیل کرنے کی کوشش نہ کرے اور اس کے ساتھ پر فخر محسوس کرے۔ لیکن وہ ایسا بندہ کہاں ڈھونڈے۔
روایتی طریقوں سے آنے والے رشتوں کو کم عمر، سلیقہ شعار اور دبلی پتلی لڑکی درکار ہوتی ہے۔ لڑکی ڈاکٹر، انجینئر یا کسی اور پروفیشنل ڈگری کی حامل ہو اور کسی معروف یونیورسٹی سے اس نے ڈگری کر رکھی ہو تو کیا ہی بات ہے۔ اگر یہ نہیں تو امریکہ یا برطانیہ کی شہریت ہی رکھتی ہو۔ پوش علاقے میں رہائش ہو۔ گھر میں دو چار گاڑیاں اور پیسے کی ریل پیل ہو۔ ہر عورت کے پاس یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔ پھر جو عورت اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے یا کیریئر بنا لے، اسے ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ شادی کے لیے غیر موزوں سمجھنے لگتا ہے۔
ایسی خواتین کو کہا جاتا ہے کہ وہ شادی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ انہیں ان کی مرضی کا بندہ پاکستان میں نہیں مل سکتا۔ اگر انہوں نے شادی کرنی ہے تو اپنا معیار کم کریں یا ملک سے باہر اپنے لیے رشتہ دیکھیں۔ ان کے دوست احباب بھی ان کا ہر قدم پر ساتھ دینے کے باوجود اس مرحلے پر غائب ہو جاتے ہیں۔ البتہ، اپنی پھوپھو، خالہ، یا چچا کی بیٹی سے شادی کرنے اور دو بچے پیدا کرنے کے بعد ان کے پیچھے رال ٹپکاتے آنے لگتے ہیں۔
ایسی خواتین اور مایوس ہو کر اپنے سے جڑی ہر چیز کو سخت نظروں سے دیکھنے لگتی ہیں۔ اگر ان کا تعلق کسی امیر گھر سے ہوتا یا ان کا گھر کسی پوش علاقے میں ہوتا یا انہوں نے بیس سال کی عمر میں ابا جی کے لائے ہوئے رشتے کا انکار نہ کیا ہوتا تو وہ ان مردوں کی ٹپکتی رالیں نہ دیکھ رہی ہوتیں۔ اسی سوچ کے ساتھ وہ پھر سے رشتے والوں کے سامنے پلیٹیں سجانے لگتی ہیں۔ رشتہ دیکھنے کے اس روایتی طریقے میں سو مسائل ہیں لیکن پاکستان میں ایک اچھے رشتے کے امکان اسی طریقے سے ممکن ہیں۔
نیٹ فلیکس پر جب انڈین میچ میکنگ نامی سیریز آئی تو اس کے مرکزی کردار سیما فرام ممبئی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا حالانکہ وہ اپنا کام انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں کر رہی تھیں۔ ہمارے پاس ان جیسی رشتہ کروانے والی خواتین موجود ہی نہیں ہیں۔ سیما کے پاس ایک پروفائل ڈیٹابیس تھا، جس میں وہ اپنے ہر کلائنٹ کی پروفائل رکھتی تھیں۔ وہ اپنے کلائنٹس کو ایک وقت میں ایک پروفائل دکھاتی تھیں اور ان سے کہتی تھیں کہ وہ کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے اپنے والدین سے ضرور مشورہ کریں اور سو فیصد میچ کی تلاش میں نہ رہیں۔ اگر کوئی اسی نوے فیصد بھی لگ رہا ہے تو اسے ہاں کہہ دیں۔
ہم نے انہیں ان کی باتوں کی وجہ سے سخت برا بھلا کہا لیکن کیا وہ سچ نہیں کہہ رہی تھیں؟ اگر ہم پر ہمارے خاندان، برادری یا احباب کا دباؤ نہ ہو تو کیا ہم کسی سے مہذبانہ طریقے سے بات کریں گے؟ ہم اتنی مہذب قوم ہوتے تو آج ہمارا مسئلہ مریخ کے کسی غیر دریافت شدہ حصے پر پہنچنا ہوتا۔ ہم خواتین کی شادی میں آنے والی رکاوٹوں پر بحث نہ کر رہے ہوتے۔
ہمارے ہاں خواتین اور مردوں کا معاشرے میں میل جیل نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایک ساتھ پڑھنے اور کام کرنے کے باوجود وہ ایک دوسرے کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے۔ کوئی کسی سے بات کرنے کی کوشش کرے تو اگلا انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں رشتہ آنٹی کو بھی دور سے ہی خدا حافظ کہہ دیا جائے تو رشتہ کیسے ہوگا۔
ڈیٹنگ ایپس اور سوشل میڈیا گروپس نے رشتے ڈھونڈنے کے نئے راستے ضرور کھولے ہیں، لیکن یہ بھی اپنی مشکلات سے خالی نہیں ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر موجود مردوں میں سے کئی یا تو شادی شدہ ہوتے ہیں یا صرف عارضی تعلقات کے خواہاں۔ دوسری طرف، سوشل میڈیا گروپس پر پروفائل شیئر کرنا اکثر خاندان اور دوستوں میں شرمندگی کا باعث بن سکتا ہے۔
ڈیٹنگ ایپس پر موجود پاکستانی مرد اس ایپ کو مغرب کی طرح استعمال کرنا چاہتے ہیں گرچہ ہمارا معاشرہ اس طرح کے استعمال کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ خود بھی اپنے گھر کی خواتین کے ایسے ڈیٹنگ کرنے کو پسند نہیں کریں گے لیکن جب بات دوسرے کے گھر کی ہو تو ان کے اصول ہی تبدیل ہو جاتے ہیں۔ وہ ایسے ظاہر کرتے ہیں جیسے پاکستان یورپ کا حصہ بن چکا ہو اور خاتون کو پتہ ہی نہ ہو۔ اور اگر خاتون ان سے شادی کی بات کریں تو وہ ہنسنا شروع کر دیں گے ایسے جیسے کوئی لطیفہ سن لیا ہو۔
ایسے حالات میں ہماری خواتین اپنے لیے رشتہ کیسے ڈھونڈیں؟ کیا واقعی ملک سے باہر چلی جائیں یا کسی بھی ایرے غیرے نتھو خیرے کا رشتہ قبول کر کے شادی شدہ ہونے کا ٹیگ حاصل کر لیں۔ آپ ہی بتائیں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔