’خالی آکسیجن سلنڈر واپس ضرور لائیں‘
10 مئی 2021نیپالی حکومت نے کوہ ہمالیہ کی مختلف چوٹیوں کو سَر کرنے والے کوہ پیماؤں سے کہا ہے کہ وہ اپنی مہم کے اختتام پر آکسیجن کے سلنڈر راستے میں یا منزل پر مت پھینکیں بلکہ وہ انہیں اپنے ساتھ نیچے لائیں اور حکام کو جمع کرائیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ کھٹمنڈو حکومت ان خالی سلنڈروں میں دوبارہ آکسیجن بھر کر انہیں دوبارہ استعمال میں لانا چاہتی ہے۔ نیپال میں کورونا بیماری کی لپیٹ میں آنے والے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
بھارت:کورونا سے بچ گئے تو’بلیک فنگس‘ کا خطرہ
کوہ پیمائی کا موسم
نیپال میں رواں برس سات سو مہم جوؤں کو کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوں کو سَر کرنے کے اجازت نامے یا لائسینس جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں صرف چار سو آٹھ غیر ملکی کوہ پیما سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی مہم پر روانہ ہونے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بقیہ ایک سو بانوے مہم جُو کوہِ ہمالیہ کی دیگر پندرہ بلند چوٹیوں کی مہم سر کرنے کے لیے مختلف اوقات میں روانہ ہوں گے۔ نیپال میں ہمالیائی چوٹیوں کی مہم صرف اپریل سے مئی تک ممکن ہوتی ہے۔ اس کے بعد مہم کا سفر دھند، گہرے بادلوں اور برفباری میں قبل از وقت شدت پیدا ہونے سے انتہائی کٹھن ہوتا جاتا ہے۔
نیپالی ماؤنٹینیئرنگ ایسوسی ایشن نے کوہ پیماؤں سے اپیل کے ہے کہ وہ اپنے آکسیجن کے خالی سلنڈر واپس ضرور لائیں اور ان کے اس عمل سے وہ کورونا وبا سے شدید علیل نیپالی افراد کی مدد کریں گے کیونکہ حکومت ان سلنڈرز میں دوبارہ آکسیجن بھر کر استعمال کرنا چاہتی ہے۔
کوہ پیماؤں کو آکسیجن سلنڈرز کی ضرورت
کوہ ہمالیہ کی بلند چوٹیوں پر جانے والے کوہ پیماؤں کو آکسیجن سلنڈرز یا بوتلوں کی ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ بلندی پر آکسیجن کی کمی ہونے سے سانس لینے میں دشواری پیدا ہو جاتی ہے۔ نیپال کے ایک سینیئر اہلکار کول بہادر گُورونگ کا کہنا ہے کہ رواں برس کوہ پیمائی کے موسم میں غیر ملکی کوہ پیما اور ان کے ساتھ جانے والے شیرپا گائیڈز مجموعی طور پر ساڑھے تین ہزار آکسیجن کی بوتلیں لے کر گئے ہیں۔
گُورونگ نے واضح کیا کہ اکثر و بیشتر آکسیجن والی بوتلیں کوہ پیمائی کے دوران چھوڑ دی جاتی ہیں اور وہ بعد میں برف یا برفانی تودوں تلے دب کر رہ جاتی ہیں۔ نیپالی حکومتی اہلکار نے کوہ پیماؤں سے اپیل کی ہے کہ وہ اور شیرپا ان خالی بوتلوں کو واپس لائیں تا کہ انہیں دوبارہ بھر کر استعمال میں لایا جا سکے۔
کورونا کے بہانے، کئی ملکوں میں بنیادی حقوق کی پامالی
نیپال میں کورونا کی دوسری لہر
نیپال میں اس وقت کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی مہلک بیماری کووڈ انیس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے پہلے سے کمزور نظام صحت کے ُبری طرح ناکام ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہ صورت حال ویسی بنتی جا رہی ہے جیسی نیپال کے ہمسایہ ملک بھارت میں نظر آ رہی ہے۔
اتوار نو مئی کو نیپال میں 8777 نئے کورونا کیسز ریکارڈ کیے گئے تھے۔ یہ نو اپریل کے مقابلے میں تیس گنا زیادہ ہے۔ اس ملک میں کورونا سے بیمار ہونے والے کل افراد کی تعداد چار لاکھ کے قریب ہے۔ اب تک3720 نیپالی مریض کووڈ انیس کی بیماری کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔
بھارت: ایک طرف کورونا کی مار دوسری طرف لوٹ کھسوٹ کا بازار
چین سے امداد کی درخواست
اس پریشان کن صورت حال کی وجہ سے نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں آکسیجن کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔ نیپالی وزارتِ صحت کے ایک اہلکار سمیر کمار کے مطابق ملک کو پچیس ہزار آکسیجن سلنڈرز فوری طور پر درکار ہیں تا کہ کورونا وائرس سے بیمار افراد کو بچایا جا سکے۔ سمیر کمار کا مزید کہنا ہے آئی سی یو بیڈز، کمپریسرز اور آکسیجن پلانٹ بھی درکار ہیں۔
کھٹمنڈو حکومت نے چین سے بیس ہزار آکسیجن سلنڈرز روانہ کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔ چین نے نیپال کو کورونا بیماری میں درکار ہیلتھ اشیاء کی فراہمی کا یقین دلایا ہے۔
ع ح، ک م (روئٹرز)