حوثی شیعہ ملیشیا پر حملے جاری رکھے جائیں گے: عرب لیگ
29 مارچ 2015عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل نبیل العربی نے یمنی بحران کے حوالے سے شرکاء کے خیالات کا احاطہ کرتے ہوئے کہا کہ یمن انتشار، افراتفری اور بحرانی حالات کے ایسے دہانے پر پہنچ چکا تھا جہاں سے صورت حال کی واپسی ناممکن ہوتی۔ اِسی تناظر ہی میں عرب اور دوسرے بین الاقوامی فیصلے کیے گئے کیونکہ حوثی شیعہ ملیشیا کی بغاوت نے تمام راستے بند کر دیے تھے اور اب عرب دنیا یمن میں ایک جائز حکومت کی خواہشمند ہے۔ ہفتہ 28 مارچ کو عرب لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے یمن کے راہِ فرار اختیار کیے ہوئے صدر عبدالربہ منصور ہادی نے حوثی شیعہ ملیشیا کی حمایت کا الزام ایران پر لگایا تھا۔ دوسری جانب ایران اور حوثی شیعہ منصور ہادی کے الزام کی تردید کرتے ہیں۔
سربراہی اجلاس میں عرب رہنماؤں نے حوثی شیعہ ملیشیا سے بھی کہا ہے کہ وہ دارالحکومت اور دوسرے تمام مقامات سے واپسی اختیار کرتے ہوئے اپنے علاقے کی جانب لوٹ جائیں اور حکومت جائز نمائندوں کے حوالے کر دیں۔ عرب لیگ کے سربراہ نبیل العربی نے مشترکہ اعلامیہ پڑھتے ہوئے اجلاس کے شرکا کو بتایا کہ حوثی شیعہ ملیشیا پر حملے اُن کے مکمل انخلا اور غیر مشروط ہتھیار پھینکنے تک جاری رہیں گے۔ حوثی شیعہ ملیشیا اور سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کے حامیوں کو جمعرات کی رات سے سعودی قیادت میں قائم عرب ملکوں کے اتحادی طیاروں کی بمباری کا سامنا ہے۔
شرم الشیخ میں کل ہفتے کے دن شروع ہونے والا عرب ملکوں کی تنظیم عرب لیگ کا سربراہ اجلاس آج اتوار کے روز ختم ہو گیا ہے۔ اِس اجلاس میں عرب دنیا کو درپیش جغرافیائی سلامتی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ فوج بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ نبیل العربی کے بعد مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے شرکاء کو مطلع کیا کہ ایک اعلیٰ سطحی پینل عرب لیگ کے سربراہ کی قیادت میں فوج کے ڈھانچے اور دوسرے طریقہٴ کار کو طے کرے گا۔ السیسی کے مطابق مجوزہ مشترکہ فوج لیبیا سے لیکر یمن تک کے سکیورٹی خطرات سے نمٹنے کے لیے قائم کی جائے گی۔ یہ امر اہم ہے کہ اجلاس کے دوران عرب دنیا کی مشترکہ فوج کا نظریہ مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے پیش کیا تھا۔
مصر کے سکیورٹی اور فوجی ذرائع نے بتایا ہے کہ مشترکہ عرب فورس کی مجوزہ تعداد چالیس ہزار تک پہنچ سکتی ہے۔ اِس فوج کا صدر دفتر قاہرہ یا ریاض میں سے ایک منتخب کیا جائے گا۔ اِس فوج کی ہیئت خصوصی دستوں کی مانند ہو گی جسے جنگی طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور ہلکے توپخانے کی مدد بھی حاصل ہو گی۔ امکان ظاہر کیا گیا ہے کہ عرب لیگ کی تمام بائیس رکن ریاستیں مشترکہ عرب فوج میں شمولیت کے لیے تیار نہیں ہو سکیں گی۔ ماضی میں بھی مشترکہ فوج تیا کرنے کی پلاننگ ناکامی سے ہمکنار ہو چکی ہے۔