حملہ آور داعش سے متاثر تھا، انڈونیشی حکام
21 اکتوبر 2016خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعرات کے روز ہونے والا یہ حملہ دنیا میں سب سے بڑی مسلم آبادی رکھنے والے ملک انڈونیشیا میں اُن واقعات کی تازہ کڑی ہے جن کا تعلق شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے بنتا ہے۔ انڈونیشیا میں داخلی طور پر عسکریت پسندی میں اضافے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔
انڈونیشیا پولیس کے ترجمان کے مطابق جمعرات کو ہلاک ہونے والے عسکریت پسند کے گھر کی تلاشی کے دوران پولیس کو وہاں سے بم بنانے کا سامان، اسلحہ اور ایک تلوار بھی ملی۔ بوائے رافلی امر نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران بتایا، ’’اس نے متعدد پائپ بم تیار کیے تھے۔‘‘ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اب اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کس کے ساتھ رابطے میں تھا۔
دہشت پسند تنظیم داعش نے آج جمعے کے روز اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ بات اس گروپ کی نیوز ایجنسی عماق کی طرف سے بتائی گئی ہے۔
جمعرات 20 اکتوبر کو انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے ایک مضافاتی علاقے کے مصروف چوک میں اس حملہ آور نے ایک تیز دھار آلے سے حملہ کر کے تین پولیس اہلکاروں کو زخمی کر دیا تھا۔ اس نے پائپ بم بھی پولیس اہلکاروں پر پھینکے مگر وہ پھٹ نہ سکے۔ پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں یہ 21 سالہ شخص زخمی ہو گیا اور بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا تھا۔
پولیس کی طرف سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ سلطان ازیان سیاح نامی یہ حملہ آور انڈونیشیا میں سرگرم ایک عسکریت پسند گروپ جماعت انصار الدولہ کا رکن تھا جو داعش کا حامی گروپ ہے۔
داعش کے حامی مختلف چھوٹے گروپوں کے اتحاد سے تشکیل پانے والے اس گروپ کا سربراہ جیل میں قید شدت پسند مذہبی رہنما امن عبدالرحمان ہے۔ عبدالرحمان ایک عسکری تربیتی کیمپ چلانے میں مدد کے الزام میں نو برس قید کی سزا بھگت رہا ہے۔
انڈونیشی حکام کے مطابق ملک میں داعش کے 1200 سے زائد پیروکار موجود ہیں جبکہ قریب 400 انڈونیشی باشندے داعش میں شمولیت کے لیے شام جا چکے ہیں۔ پولیس ایسے افراد کے حوالے سے الرٹ ہے جو عراقی فورسز کی طرف سے موصل پر حملہ شروع کیے جانے کے بعد واپس انڈونیشیا لوٹ سکتے ہیں۔
رواں برس جنوری میں عسکریت پسندوں نے جکارتہ کے مرکز میں فائرنگ اور بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں چار پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ انڈونیشیا میں یہ پہلا حملہ تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔