حزب التحریر پاکستان میں ’فوجی بغاوت‘ کے لیے سرگرم ہے، روئٹرز
2 جولائی 2011اسلامی انتہا پسند جماعت حزب التحریر گو کہ یہ دعوی کرتی ہے کہ وہ تشدد پر یقین نہیں رکھتی تاہم بعض مبصرین کا خیال ہے کہ یہ جماعت پاکستانی عوام کو سڑکوں پر لا کر ایک طرف تو ملک میں ’خود ساختہ اسلامی‘ نظام نافذ کرنے کے لیے کوشاں ہے دوسری جانب ماہرین اس جماعت پر یہ الزام بھی عائد کر رہے ہیں کہ حزب التحریر پاکستان میں فوجی بغاوت کی کوششوں میں بھی مصروف ہے۔
جمعہ کے روز حزب التحریر کے ترجمان تاجی مصطفیٰ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’انڈونیشیا سے تیونس تک‘ تمام مسلمان امریکہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ مصطفیٰ نے یہ بھی کہا کہ پاکستانی عوام ملک میں ’اسلامی نظام‘ کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں۔
حال ہی میں اس جماعت کو بین الاقوامی توجہ اس وقت حاصل ہوئی، جب پاکستانی فوج کی جانب سے 22 جون کو یہ کہا گیا کہ وہ حزب التحریر سے تعلق کے شبے میں میجر رینک کے چار افسران سے پوچھ گچھ کر رہی ہیں۔ ان سے قبل مئی میں اس الزام کے تحت برگیڈیئر علی خان کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔
گزشتہ دس برسوں میں اس اعلی رینک کے کسی افسر کی ایسے سنگین الزام کے تحت یہ پہلی گرفتاری تھی۔ رواں برس مئی کے آغاز پر امریکی نیول سیِلز کے ہاتھوں پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں فوجی ملٹری اکیڈمی سے کچھ ہی فاصلے پر اسامہ بن لادن کی ایک آپریشن میں ہلاکت کے بعد پاکستانی فوج پر شدید دباؤ ہے کہ وہ اسلامی تنظیموں سے ہمدردی رکھنے والے افسران کے خلاف کارروائی کرے۔
بن لادن کی ہلاکت کے کچھ ہی روز بعد کراچی شہر میں مہران نیول بیس پر دہشت گردانہ حملے کے بعد بھی ایسی خبریں سامنے آئیں، جن کے مطابق دہشت گردوں کو نیول بیس کے حوالے سے اہم معلومات بعض ’اندرونی عناصر‘ ہی سے حاصل ہوئیں تھیں۔
حزب التحریر کے ترجمان تاجی مصطفیٰ نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’خلافت کا نظام‘ نافذ کرنے کے لیے معاشرے کے تمام طبقات کو متحرک کیا جا رہا ہے۔ مصطفیٰ کے مطابق ان کی جماعت کی کوشش ہے کہ عوام میں اسلام کی مقبولیت میں اضافہ کیا جائے اور اسلامی نظام کے حوالے سے عوام کے ذہن کو تیار کیا جائے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : امتیاز احمد