حاملہ خاتون کی لائف اسپورٹ ختم، امریکی جج کا حکم
25 جنوری 2014جج کی جانب سے یہ حکم مارلیزے مونوز نامی اس خاتون کے اہل خانہ کی استدعا پر دیا گیا۔ اس خاندان نے عدالت کا دروازہ اس وقت کھٹکھٹایا، جب ہسپتال نے اس حاملہ خاتون کی لائف اسپورٹ بند کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہسپتال انتظامیہ کا موقف تھا کہ ریاستی قانون کے مطابق کسی حاملہ خاتون کی لائف اسپورٹ ختم نہیں کی جا سکتی۔
مونوز کے اہل خانہ مونوز کو اس حالت میں زندہ رکھنے کے حامی نہیں تھے کہ جب اس خاتون کا دماغ مر چکا تھا، تاہم اسے مصنوعی طور پر زندہ رکھا جا رہا تھا۔
جمعے کے روز جج نے فورٹ ورتھ میں قائم ہسپتال کو حکم دیا کہ پیر کے روز شام پانچ بجے تک اس خاتون کے تمام لائف اسپورٹ آلات بند کر دیے جائیں۔
اس مقدمے کی وجہ سے امریکا میں اس بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ آیا کسی خاتون کو جو قانونی اور طبی اعتبار سے فوت ہو چکی ہو، صرف بچے کو بچانے کے لیے زندہ رکھنا کتنا درست عمل ہے۔ اس مقدمے سے امریکا میں اسقاط حمل کے حامی اور مخالفین کے درمیان بھی ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے۔ اسقاط حمل کے مخالفین کا کہنا ہے کہ والدہ کی وفات کے باوجود بچے کو دنیا میں لایا جانا چاہیے۔
مونوز 14 ہفتے کے حمل سے تھیں جب ان کے شوہر نےانہیں 26 نومبر کو گھر میں بے ہوشی کی حالت میں پایا تھا۔ طبی حکام کے مطابق ممکنہ طور پر مونوز سر میں خون جمنے کی وجہ سے بے ہوش ہو کر گری تھیں۔ مونوز کے شوہر ایرک کے مطابق وہ اور ان کی اہلیہ پیرامیڈکس ہیں اور ایسی صورتحال میں لائف اسپورٹ نہ لینے کے بارے میں واضح سوچ کے حامل ہیں۔ ان کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اگر صرف بچے کی پیدائش کے لیے مونوز کو مصنوعی طور پر زندہ رکھا گیا، تو مستقبل میں یہ ایسے معاملات میں ایک خطرناک روایت بن جائے گا۔ ادھر جان پیٹر سمتھ ہسپتال کی انتظامیہ کا موقف تھا کہ انہیں ہر حال میں بچے کی زندگی بچانے کی کوشش کرنا ہے۔ ہسپتال انتظامیہ کا موقف تھا کہ وہ اس سلسلے میں ریاستی قانون کے سامنے بے بس ہیں، کیونکہ ریاست ٹیکساس کے قانون کے مطابق کوئی حاملہ خاتون اپنا علاج روکنے کی مجاز نہیں ہے۔