’جینیوا امن مذاکرات،نشستن خوردن اور برخواستن کےسوا کچھ نہیں‘
4 فروری 2016اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفن ڈے مستورا نے اپنی مصالحتی کوششیں بھی روک دیں ہیں کیونکہ روسی فضائی حملوں کی پشت پناہی میں شامی فوج نے شمالی حلب میں پیش قدمی کرتے ہوئے اس شہر کو ترکی سے پہنچنے والی اپوزیشن سپلائی لائنوں سے بالکل کاٹ کر رکھ دیا ہے۔
ترک صدارتی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک تبصرے میں ایردوآن کا کہنا تھا، ’’روس شام میں لوگوں کوہلاک کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا اس صورتحال میں کوئی امن مذاکرات ممکن ہیں؟ کیا امن بات چیت ایسے کی جاتی ہے؟‘‘
ترک صدر نے یہ باتیں پیرو کے دورے کے دوران دارالحکومت لیما کی یونیورسٹی میں ایک خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’ایک ایسے ماحول میں جہاں اب بھی بچے قتل کیے جا رہے ہیں، اس قسم کی مذاکراتی کوششوں کا حاصل ظالموں کو سہولت فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں۔‘‘
ایردوآن کا کہنا تھا، ’’یہ ہمیشہ اجتماع کا انعقاد کرتے ہیں، اکھٹا ہوتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اور محفل برخواست ہو جاتی ہے۔ اب یہ شام کے امن مذاکرات کی ایک نئی تاریخ دے رہے ہیں۔ ابھی آپ دیکھیں گے کہ 28 فروری کے آتے ہی یہ ان مذاکرات کو دوبارہ ملتوی کر دیں گے۔‘‘
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے شام اسٹیفن ڈے مستورا نے جینوا مذاکرات میں تین ہفتوں کے وقفے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران شام کی جنگ کے خاتمے کے بارے میں کی جانے، والی یہ پہلی کوشش ہے۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کے ایک اہلکار نے جینیوا مذاکرات کے ملتوی ہونے کی وجہ شام میں روسی حملوں میں شدت بتائی ہے۔
ترکی شامی اپوزیشن کی پشت پناہی کرنے والا سب سے اہم ملک ہے اور ایک عرصے سے اپنا یہ مؤقف پیش کر رہا ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بغیر شام میں امن نہیں ہو سکتا۔ ایردوآن نے اس بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے کہ شامی امن مذاکرات بحال ہوئے بھی تو اس کے کوئی ٹھوس نتائج نکل پائیں گے۔
ماسکو نے قریب چار ماہ قبل شام میں فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ شامی تنازعے پر نظر رکھنے والی سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی ایک رپورٹ میں گزشتہ سنیچر کو کہا گیا تھا کہ ان روسی فضائی حملوں میں اب تک قریب 1,400 شہری ہلاک ہو چُکے ہیں۔
ترکی بارہا خبردار کرتا رہا ہے کہ شام میں روسی حملے یورپ کی طرف بڑھنے والے مہاجرین کے سیلاب کی صورتحال کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔
روس کا کہنا ہے کہ اُس کے حملوں کا ہدف دہشت گرد ہیں اور ان حملوں میں کوئی توقف نہیں کیا جائے گا۔