جیش العدل کی طرف سے اغوا کیے جانے والے ایرانی رہا
4 اپریل 2014تاہم ابتدائی خبروں میں اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا تھا کہ اغوا ہونے والے پانچ ایرانی فوجیوں میں سے کتنے رہا ہوئے ہیں۔ دریں اثناء ایرانی نیوز ایجنسی فارس نے قانون ساز اسماعیل کوساری کے حوالے سے بتایا ہے کہ بازیاب ہونے والے چار اہلکاروں کو اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانے کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق پانچویں ایرانی اہلکار کو گزشتہ ماہ ہی ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کوساری کے مطابق مقتول محافظ کی لاش حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
جیش العدل جنوب مشرقی ایران میں سرگرم ایک عسکری گروپ ہے جس نے ایرانی بارڈر گارڈز کو اغوا کیا تھا اور گزشتہ ماہ ان ایرانی محافظین میں سے ایک کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ایران کی فارس نیوز ایجنسی نے ایک نا معلوم سکیورٹی اہلکار کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے، ’’چند گھنٹوں پہلے دہشت گرد گروپ جیش العدل نے بارڈر گارڈز کو رہا کر دیا ہے۔‘‘ جیش العدل کی طرف سے اس امر کا اعلان اُس کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کیا گیا تھا جس کے الفاظ کچھ یوں تھے، ’’ایران میں ممتاز سنی علماء کی درخواست پر یرغمال ایرانی فوجیوں کو رہا کرتے ہوئے علماء کے ایک وفد کے حوالے کر دیا گیا ہے۔‘‘
ایران کے پانچ سرحدی محافظوں کو بلوچستان میں سرگرم عمل عسکری گروپ جیش العدل نے چھ فروری کو کو اغوا کر لیا تھا اور انہیں پاکستان کے کسی نامعلوم علاقے کی طرف لے جایا گیا تھا۔ اس واقعے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو ٹیلی فون کال کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی رہائی کے لیے ''سنجیدہ اور فوری کارروائی‘‘ کا مطالبہ کیا تھا۔ ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق صدر روحانی نے عسکریت پسندوں کے خلاف مشترکہ کارروائی کرنے کی بھی تجویز پیش کی تھی۔ اس کے جواب میں پاکستانی وزیر اعظم نے اس معاملے کو 'انتہائی اہم‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی حکومت فوجیوں کی رہائی کے لیے کارروائی کرنے کے لیے تیار ہے۔
اس ٹیلفونک گفتگو سے پہلے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے مغوی فوجی جمشید دانائی کی زندگی سے متعلق 'شیدید تشویش‘ کا اظہار کیا تھا۔ آزاد ذرائع سے اُس ہلاکت کی تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔ کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد ایرانی وزیر خارجہ نے سرکاری ٹیلی وژن کو پر بیان دیتے ہوئے کہا تھا ، '' ہم نے وہ تمام کوششیں کیں، جو ان کی رہائی کے لیے کر سکتے تھے۔ لیکن یہ بات مایوس کن ہے کہ پاکستانی حکومت اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے میں ناکام رہی ہے اور دہشت گردوں کو ان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت ہے۔‘‘
چند روز پہلے ایرانی وزیر داخلہ عبدل رضا رحمانی فاضلی نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی سرحدی محافظین کی رہائی کے لیے تہران حکومت اپنی مسلح فورسز کو پاکستان اور افغانستان کے ریاستی علاقوں میں بھیج سکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں سُنی شدت پسند تنظیم لشکر جھنگوی، ایرانی بلوچستان میں سر گرم عمل جیش العدل اور کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے اپنے مشترکہ اہداف پر حملوں کے لئے ایک خفیہ اتحاد قائم کیا ہے، جسے ماہرین نے صوبے میں قیام امن کے لئے ہونے والی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک نئی سازش سے تعبیر کیا ہے۔