1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جواد ظریف کا دورہ پاکستان: مقاصد کیا ہیں؟

عبدالستار، اسلام آباد
31 اگست 2018

ایک ایسے وقت میں جب امریکا ایران پر نئی پابندیاں لگانے جا رہا ہے اور تہران کو ریاض اور تل ابیب کی طرف سے بھی مشکلات کا سامنا ہے، ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف کا دورہ ء پاکستان بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/347Mn
Iran Außenminister Mohammad Javad Zarif
تصویر: ISNA

پاکستان میں کئی ماہرین ایرانی وزیر خارجہ جواد طریف کے دورہ پاکستان کو تہران کی طرف سے مشکل وقت میں اتحادی ڈھونڈنے کی ایک کوشش قرار دے رہے ہیں جب کہ کچھ تجزیہ نگار وں کے خیال میں یہ دورہ خطے کی صورتِ حال اور آئی ایس آئی ایس کے بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کے حوالے سے ہے۔

جواد ظریف دو روزہ دورے پر کل شام اسلام آباد پہنچے تھے۔ دفترِ خارجہ کے ایک اہم عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ اس دورے کا کوئی پہلے سے متعین ایجنڈا نہیں ہے۔ اس عہدیدار نے مزید کہا، ’’ایران ہمارا برادر اسلامی ملک ہے اور نئی حکومت کے آنے کے بعد یہ کسی اسلامی ملک کے پہلے وزیرِ خارجہ ہیں، جو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔‘‘

ایرانی وزیرِ خارجہ نے آج بروز جمعہ  اپنے پاکستانی ہم منصب اور آرمی چیف جنرل باجوہ سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان مشکل کی اس گھڑی میں ایران کے ساتھ ہے۔ دونوں وزرائے خارجہ نے عالمی اور علاقائی صورتِ حال اور ایران کے جوہری معاہدہ کے حوالے سے بات چیت کی۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں ایران خطے کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان سے کچھ امیدیں باندھ رہا ہے۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب نے اس دورے پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ایران کے اوپر نومبر میں امریکا کی طرف سے پابندیاں لگائی جارہی ہیں اور تہران چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ بارٹر ٹریڈ کرے یا پھر چینی و روسی کرنسی میں تجارت کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ پاکستان خام تیل ایران سے لے اور ایران کو بدلے میں خوراک اور دیگر اشیاء فراہم کرے۔‘‘

جنرل امجد نے مزید کہا کہ اس دورے کا مقصد صرف معاشی نہیں بلکہ اسٹریٹجک بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا،  ’’شام میں داعش کو ایران اور روس کی وجہ سے شکست ہوئی ہے۔ اور داعش کے لوگ اس وجہ سے آگ بگولہ ہیں۔ امریکا داعش کے ان ارکان کو روس اور ایران کے خلاف استعمال کرنا چاہتا ہے، جن کا تعلق ایرانی بلوچستان، چیچنیا اور داغستان سے ہے۔ پاکستان نے جنداللہ کے حوالے سے ایران کی مدد کی تھی ۔ اب ایران یہ چاہتا ہے کہ پاکستان داعش کے خلاف بھی تہران کی مدد کرے اور اس دورے کا ایک مقصد اس مدد کا حصول بھی ہے۔‘‘

لیکن کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں نئی حکومت ایران اور سعودی عرب میں مصالحت کرانے کے لیے کوشاں ہے اور اس دورے کا مقصد ایسی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، اسلام آباد کے بین الاقوامی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکڑ بکر نجم الدین کے خیال میں سعودی عرب کے کچھ حلقوں میں یمن کی جنگ سے بیزاری ہے اور وہ اس جنگ کے خاتمے کے لیے ایران سے مصالحت چاہتے ہیں۔

ڈاکٹر بکر نجﺍ الدین کے بقول، ’’میرے خیال میں سعودی عرب یمن کی جنگ سے بہت پریشان ہے اور اس لیے وہ روس اور پاکستان سے درخواست کر رہا ہے کہ وہ ایران کو اس مسئلے کے حل کے لیے قائل کرے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر سعودی عرب کی مدد کی ہے اور اب بھی وہ تہران اور ریاض کے درمیان صلح صفائی کی کوشش کر رہا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان مصالحت اتنی آسان نہیں ہے کیونکہ مسئلہ صرف یمن میں ہی نہیں ہے بلکہ مشرق وسطیٰ کے ان دونوں ممالک کے درمیان شام، بحرین اور قطر سمیت کئی اور دوسرے مسائل بھی ہیں اور ان سب کا حل کرنا آسان نہیں۔ تاہم پاکستان کوششیں جاری رکھے گا۔‘‘
کئی ماہرین کے خیال میں ایران کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت اور فوجی قیادت امریکا سے نالاں ہے اور واشنگٹن کے بے جا مطالبات پر چراغ پا بھی ہے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی آج بروز جمعہ صحافیوں کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یہ کہا ہے کہ اسلام آباد امریکا کے بے جا مطالبات نہیں مانے گا۔ کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ پاکستان ایران کے حوالے سے امریکی دباؤ قبول نہیں کرے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں