جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے خلاف مصری خواتین کی جنگ
29 دسمبر 2016بتیس سالہ نیما جمال نے خود پر حملہ کرنے والے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا: ’’اُسے پولیس تک لے جانا بڑا مشکل کام تھا۔‘‘ وہ سارا دن کام کر کے تھکی ہاری ایک دوست کے ہمراہ ایک چھوٹی بس پر گھر جاتے ہوئے اُس وقت سکتے کا شکار ہو گئی تھی، جب اچانک ایک مرد نے کھلے عام اُسے پیچھے سے اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔
اُس نے بتایا: ’’میں پھیپھڑوں کی پوری قوت سے چلائی اور بس کے ڈرائیور سے کہا کہ وہ سیدھا پولیس اسٹیشن چلے۔‘‘ خوش قسمتی سے ڈرائیور بھی مددگار ثابت ہوا اور تھانہ بھی قریب ہی تھا لیکن باون سالہ حملہ آور بس کی کھڑکی سے کُود کر بھاگ نکلا۔ نیما جمال نے بس سے اُتر کر دوست کی مدد سے اُسے پکڑا اور تھانے لے گئی۔
اگلا مرحلہ ایک وکیل کی تلاش کا تھا۔ پھر عدالت میں مقدمے کی کارروائی ڈیڑھ سال تک چلتی رہی۔ بالآخر ابتدائی فیصلے کے مطابق حملہ آور کو پانچ سال کی سزائے قید کا حکم سنا دیا گیا۔
نیما جمال پر 2010ء میں بھی ایسا ہی ایک حملہ ہوا تھا لیکن تب تھانے میں اُس کی شکایت کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا گیا تھا لیکن 2013ء میں حالات بدل چکے تھے کیونکہ نیما جمال مختلف حقوقِ نسواں گروپوں کی آگاہی مہموں کے ذریعے یہ جان چکی تھی کہ جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کو سزا مل سکتی ہے۔
ویسے تو مصر میں خاص طور پر تعطیلات کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کا مسئلہ عام ہے لیکن پہلی بار شدت سے یہ مسئلہ 2011ء میں حسنی مبارک کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت کے دوران ابھر کر سامنے آیا تھا۔ حقوقِ نسواں کے لیے سرگرم ایک مصری گروپ قاہرہ سینٹر فار ڈیویلپمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انتصارالسعید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ تب قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں جنسی حملوں اور آبروریزی کے واقعات ملکی اور بین الاقوامی شہ سرخیوں کا بھی موضوع بنے تھے اور یہ میڈیا کوریج عوام کے ہاں اس حوالے سے شعور اُجاگر کرنے کا باعث بنی تھی۔ بعد ازاں التحریر چوک میں جنسی حملوں کے سات ملزمان کو عمر قید اور دو کو بیس بیس سال قید کی سزائیں ملی تھیں۔
یوں رفتہ رفتہ ایسے حملوں کا نشانہ بننے والی خواتین کو بھی حوصلہ ہوا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس طرح کے واقعات کو عام کریں۔ 2014ء میں ہر طرح کی براہِ راست، بالواسطہ یا سوشل میڈیا وغیرہ کے ذریعے بھی کی جانے والی جنسی چھیڑ چھاڑ کو باقاعدہ ایک جرم قرار دے دیا گیا، جس پر اب قید اور جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے۔
انتصارالسعید کے مطابق 2013ء سے اُن کی تنظیم نے ایسے پندرہ سے زیادہ کیسز جیتے ہیں اور زیادہ تر کیسز میں ملزموں کو قید کی سزا ہوئی۔ اب مصر میں کئی تنظیمیں اور گروپ آگے آ رہے ہیں اور خواتین کو اس حوالے سے اُن کے حقوق سے آگاہ کر رہے ہیں۔