جرمنی میں مہاجرین کی بوریت دور کرنے کا نیا طریقہ
25 مئی 2016جرمن شہر کولون میں کچھ طالب علموں نے مہاجرین کے ساتھ مل کر فٹ بال میچ کھیلنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ تنازعات اور شورش زدہ علاقوں سے ہجرت پر مجبور ہونے والے یہ مہاجرین دراصل تلخ یادوں کو بھول کر خود کو کسی کام میں مصروف کرنا چاہتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کھیل سے نہ صرف ان کی توجہ بٹے گی بلکہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بھی تر و تازہ محسوس کریں گے۔
کولون شہر میں طلبہ کے ایک گروپ ’سَوکر وِدآؤٹ بارڈرز‘ کا کہنا ہے کہ کھیل کود میں ان مہاجرین کا نہ صرف وقت بہتر طریقے سے گزر سکے گا بلکہ وہ جرمن معاشرے میں بہتر انداز میں انضمام کے قابل بھی ہو جائیں گے۔ اس گروپ کے مطابق جب تک ان مہاجرین کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے نہیں ہو جاتے، تب تک وہ کولون میں مختلف فٹ بال میچوں میں شرکت کرتے رہیں گے۔
’سَوکر وِدآؤٹ بارڈرز‘ نامی اس گروپ کے مطابق مہاجرین کے فٹ بال کھیلنے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ اس گروپ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ بہت سے مہاجرین کا کہنا ہے کہ وہ نہ صرف جرمن معاشرے سے دوری کا شکار ہیں بلکہ انہیں دیگر مہاجرین سے رابطوں میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔
کولون شہر میں اسٹوڈنٹس کی نمائندہ تنظیم ’بی ایس وی کولون‘ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ طالب علموں اور مہاجرین کے مابین رابطوں کو بڑھانا چاہتی ہے۔ یہی تنظیم ’سَوکر وِدآؤٹ بارڈرز‘ کو بھی معاونت فراہم کر رہی ہے۔ بی ایس وی کولون کے بورڈ ممبر جاروم ایکہوف کے بقول، ’’میرے خیال میں مہاجرین کی موجودہ صورتحال المناک ہے۔ ایسے لوگ جو بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے، انہیں کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اس لیے ہم نے کوشش کی کہ انہیں مدد فراہم کی جائے۔‘‘
اس گروپ نے کولون شہر کے مختلف تعلیمی اداروں میں پوسٹر چسپاں کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی ایک مہم شروع کر رکھی ہے، جس کے مطابق مذہب، شہریت، جنس، عمر اور نسل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تمام مہاجرین کو اس کلب میں خوش آمدید کہا جائے گا۔ اس کلب کی رکنیت کے لیے کوئی فیس بھی نہیں ہے بلکہ جن مہاجرین یا تارکین وطن کے پاس فٹ بال شوز یا کِٹ نہیں ہوتی، انہیں یہ اشیاء کلب کی طرف سے فراہم کر دی جاتی ہیں۔
اس گروپ کے مطابق اب تک پندرہ مہاجرین اس کلب کے ممبر بن چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا کے ممالک سے ہے۔ یہ مہاجرین اتوار کے دن فٹ بال میچوں میں شرکت کرتے ہیں۔ جاروم ایکہوف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ مستقبل میں مہاجرین کی فٹ بال ٹیموں کے ٹورنامنٹس کا اہتمام کرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
’سَوکر وِدآؤٹ بارڈرز‘ کے مطابق فٹ بال کھیلنے کے بعد شہر میں آباد مہاجرین اکیلے نہیں رہیں گے بلکہ وہ نئے دوست بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مہاجرین کے علاوہ کولون شہر کے مقامی طالب علم بھی اس گروپ کی رکنیت اختیار کر سکتے ہیں۔ جرمن طالب علم اولے، آرین اور ڈیوڈ بھی اس گروپ کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان کے مطابق مہاجرین کی مدد کرنے کا یہ ایک بہترین طریقہ ہے۔
اولے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’مہاجرین کے ساتھ کھیل کر میں لطف اندوز ہونا چاہتا ہوں۔ میں انہیں روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنانے میں بھی مدد کروں گا۔ مجھے ان مہاجرین کے ساتھ کھیل کر اور وقت گزار کر خوشی محسوس ہوتی ہے۔‘‘