جرمنی میں ’بیماری کی چھٹی‘ کا بڑھتا رجحان
29 دسمبر 2024بیماری کی چھٹی کی شرح میں اضافہ جرمن کمپنیوں کے لیے ایک بری خبر ہوسکتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ملکی معیشت پہلے ہی زوال کا شکار ہے اور اس وقت یہ ایسی درخواستوں کا بوجھ برداشت کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
پرائیوٹ ڈیٹیکٹو مارکس لینٹز اور ان کی ایجنسی میں ایسی کمپنیوں کی جانب سے درخواستوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے، جو یہ پتا لگانا چاہتی ہیں کہ ان کے ملازمین واقعی بیمار ہیں اور کام نہیں کر سکتے یا یہ صرف ایک بہانہ ہے۔
لینٹز نے اے ایف پی کو بتایا، "زیادہ سے زیادہ کمپنیاں ایسی ہیں جو مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کرنا چاہتیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ ان کے لینٹز گروپ کو سالانہ 1,200 ایسی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں، جن میں آجرین اپنے ملازمین کی بیماری سے متلعق حقائق جاننا چاہتے ہیں، ان درخواستوں کی تعداد چند سال پہلے کے مقابلے میں اب تقریباً دگنی ہو چکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر سالانہ کوئی 30، 40 یا پھر 100 دن کی سک لیو حاصل کرے تو یہ '' آجر کے لیے یہ ناخوشگوار ہو جاتا ہے۔‘‘
کار انڈسٹری سے لے کر فرٹیلائزر بنانے والی کمپنیوں تک، یورپ کی سب سے بڑی معیشت پر بیماری کی چھٹی کا بوجھ بلندی کی شرحوں کو چھو رہا ہے اور ماہرین اس حوالے خدشات کا شکار ہیں۔
اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ بیمار ہونے کی اطلاع دینے کے قوانین میں تبدیلیوں نے اس طرح کی جعلی درخواستوں کے لیے چھٹی کو آسان بنا دیا ہے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ کام کا بوجھ اور ذہنی دباؤ اس کی ایک اور وجہ ہوسکتی ہے۔
بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ رجحان جرمنی پر ایک ایسے وقت میں بوجھ ڈال رہا ہے، جب ملک کی تقریباﹰ ہر صنعت ہی سست روی کا شکار ہے۔ دوا ساز کمپنیوں کی ایک جرمن ایسوسی ایشن کے چیف اکانومسٹ کلاز مائیکلسن نے اے ایف پی کو بتایا، ''اس رجحان کے اثرات یقینی طور پر معیشت کو شدید متاثر کر رہے ہیں۔‘‘
ایسوسی ایشن کے مطابق 2023ء میں بیماری کی وجہ سے کام پر غیر حاضر رہنے والے افراد کی وجہ سے جرمنی کی معیشت کو صفر اعشاریہ تین فیصد مندی کا سامنا کرنا پڑا۔
وفاقی جرمن ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں کام کرنے والے افراد نے گزشتہ سال اوسطاً 15.1 دن کی بیماری کی چھٹی لی، جو کہ 2021 میں 11.1 دن تک محدود تھی۔
جرمنی میں صحت کی انشورنس فراہم کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک ٹی کے کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کی انشورنس رکھنے والے افراد میں سک لیو لینے کی اوسط شرح سال کے پہلے نو مہینوں میں 14 فیصد سے زیادہ رہی، جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
مرسڈیز بینز کے چیف ایگزیکٹو اولا کالینیئس نے اس مسئلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "جرمنی میں بیماری کی وجہ سے لی گئی چھٹی کی شرح دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں دگنی ہے۔‘‘
ایلون مسک کی الیکٹرک کار ساز کمپنی ٹیسلا نے اس معاملے میں کچھ الگ حکمت عملی اپنائی۔ اس کمپنی کے وہ ملازمین جو بیماری کا کہہ کر چھٹی لیتے ہیں ان کے لیے ذاتی طور پر کمپنی کی طرف سے کوئی تصدیق کرنے کے لیے بھیجا جاتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ زرا سی ناسازی کی صورت میں ڈاکٹر سے فون پر ہی بیماری کی چھٹی لینے کی اجازت لینے والے نظام کو جو کووڈ کی وبا کے دوران متعارف کرایا گیا تھا، اب ختم ہونا چاہیے کیونکہ اس نظام کا غلط استعمال اب بڑھ گیا ہے۔
لینٹز کا ماننا ہے کہ لوگ لمبی بیماری کی چھٹیاں لے کر اپنے ذاتی کام یا پھر کہیں اور ملازمت کر رہے ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کی مثال دی، جو سک لیو لے کر اپنی بیوی کے کاروبار میں اس کی مدد کر رہا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کئی لوگ یہ چھٹی لے کر اپنی جائیدادوں کی تزئین و آرائش میں مصروف ہوتے ہیں۔
اگرچہ جرمنی میں اس معاملے میں کسی جاسوس کی خدمات حاصل کرنا مہنگا عمل ہوسکتا ہے، تاہم لینٹز کے مطابق اب آجر اس قدر عاجز آچکے ہیں کہ وہ معاملے کی گہرائی تک پہنچنا چاہتے ہیں اور اس پر رقم خرچ کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔
بحرحال ہر کوئی اس بات پر قائل نہیں ہے کہ بیمار کی چھٹی کا بڑھتا مسئلہ درحقیقت غیر قانونی طور پر لوگوں کی جانب سے اس سسٹم کو استعمال میں لائے جانے کی وجہ سے ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک نیا نظام، جس کے تحت ڈاکٹر خود بخود مریضوں کی انشورنس کمپنیوں کو بیماری کے نوٹس بھیجتے ہیں، اس مسئلے کی اصل وجہ ہے۔
تاہم اس حوالے سے ایک اور پہلو بھی مدںظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
جرمن ٹریڈ یونینز سے منسلک ہانس بوئکلر فاؤنڈیشن کے ڈبلیو ایس آئی انسٹی ٹیوٹ کا ماننا ہے کہ کارکنوں پر جھوٹی سک لیو کا الزام لگانا ایک خطرناک شارٹ کٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''وہ اصل وجوہات سے نظریں چرا رہے ہیں۔''کام کا دباؤ، سانس کی بیماریوں میں مسلسل اضافہ اور دیگر بنیادی مسائل اس کی اصل وجہ ہیں۔‘‘
ر ب/ ش ر (اے ایف پی)