1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

جرمنی میں بھی کھیلوں میں پدرشاہی رویے ایک مسئلہ

7 دسمبر 2024

خواتین کے خلاف تشدد ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ تاہم اب کھیل کے شعبے میں بھی اس مسئلے کے حل پر توجہ دی جارہی ہے، جہاں روایتی ڈھانچے خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

https://p.dw.com/p/4niem
جرمن فٹ بال کھلاڑی لیہ شیولر
جرمن خواتین کی فٹ بال ٹیم نے خواتین کے خلاف تشدد کے اعداد و شمار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صنفی تشدد کے حوالے سے اقوام متحدہ کی آگاہی مہم کی حمایت کا اعلان کیا ہےتصویر: imago images/Beautiful Sports

حقوق نسواں کے لیے سرگرم اقوام متحدہ کی تنظیم یو این ویمن جرمنی کی صنفی تشدد کے خلاف آگہی مہم ’’اورنج دی ورلڈ‘‘ جاری ہے۔

جرمن خواتین کی قومی فٹ بال ٹیم نے بھی اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے اس حوالے سے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا ہے۔ جرمن فٹ بال کلب بائرن میونخ کی کھلاڑی جولی گوئین کہتی ہیں، ’’خواتین کے خلاف تشدد کے اعداد و شمار ہر سال نہایت تشویشناک ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارے لیے یہ انتہائی اہم ہے کہ ہم اس سال خواتین کی قومی ٹیم کے طور پر ایک مضبوط پیغام دیں اور 'اورنج دی ورلڈ‘ مہم کی بھرپور حمایت کریں۔‘‘

یو این ویمن جرمنی کی سربراہ، سیاست دان اور خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایلکا فرنر مطمئن ہیں کہ اب کھیل کی دنیا میں بھی خواتین کے خلاف تشدد کے مسئلے کو اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق کھیلوں میں یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ وہاں کھلاڑی اپنے کوچز یا ٹیم کے دیگر اراکین پر کافی حد تک انحصار کرتے ہیں۔ اس انحصار کی نوعیت کے باعث کبھی کبھار طاقت کا غلط استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم خواتین کے خلاف تشدد صرف کسی خاص طبقے، نسل، مذہب یا سماجی شعبے تک محدود نہیں ہے۔ یہ پورے معاشرے کا مسئلہ ہے جو ہر سطح پر موجود ہے۔

کھیل کے شعبے میں روایتی نظام بڑی رکاوٹ

کھیل کے شعبے میں ’’سیف اسپورٹ‘‘ نامی تنظیم تشدد کا شکار ہونے والے افراد کو مدد فراہم کرتی ہے۔ تاہم، کھیلوں کا روایتی نظام اس کے اور بالخصوص خواتین کے لیے محفوظ ماحول کی فراہی میں رکاوٹ بنتا ہے۔

جرمنی کے ایک شہر میں خواتین کے خلاف تشدد کی خاتمے کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک دیوار پر بنایا گیا گرافٹی آرٹ
کھیلوں کے شعبے میں نفسیاتی اور جسنی تشدد سنگین مسائل ہیںتصویر: Martin Meissner/picture alliance/AP

’’سیف اسپورٹ‘‘ کی مینیجر اینا لیمبرٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حالیہ برسوں میں معاشرتی طور پر صنفی کرداروں میں تبدیلی آئی ہے، مرد اور عورت دونوں اب اپنی روایتی ذمہ داریوں یا توقعات سے آزاد ہو کر مختلف شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ تاہم کھیلوں کی تنظیموں اور کلبوں میں اب بھی اہم انتظامی عہدے مردوں کے پاس ہیں۔ ان کے مطابق پیشہ ورانہ کھیلوں میں خواتین کی شرکت کم ہونے کے باعث کھیل کے شعبے میں مردوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتظامی عہدوں پر بھی زیادہ تر مرد فائز ہیں۔

اینا لیمبرٹ نے یہ بھی بتایا، ’’لوگ مشورے کے لیے آتے ہیں، جن میں مرد بھی شامل ہیں، جو مسائل کو سمجھتے ہیں اور تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ ہم انہیں مدد فراہم کرتے ہیں۔ لیکن چاہے وہ کوئی بڑی تنظیم ہو یا چھوٹا کلب، اکثر مجرموں کو بچا لیا جاتا ہے، واقعات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور جو لوگ اس ماحول کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔‘‘

جرمنی میں ایک فٹ بال میچ کے دوران بچوں نے خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کی مہم کی مناسبت سے نارنجی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں
کھیلوں میں خواتین کی شرکت کم ہونے کے باعث انتظامی عہدوں پر زیادہ تر مرد فائز ہیںتصویر: imago images/Lucca Fundel

کھیلوں کے شعبے میں نفسیاتی تشدد اہم مسئلہ ہے۔ تاہم جنسی تشدد بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، اور سیف اسپورٹ کی تقریباً 60 فیصد شکایتیں اسی زمرے میں آتی ہیں۔

تشدد کے خلاف جامع معاونت

جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ مختلف شراکت داروں کے ساتھ مل کر کھیلوں میں تشدد کی روک تھام کے لیے ایک جامع نظام بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس میں وفاقی ریاستوں، کھیلوں کی تنظیموں، متاثرہ افراد اور تعلیمی اداروں کو شامل کیا گیا ہے تاکہ 2026 تک ایک مرکز قائم کیا جا سکے۔ سیف اسپورٹ بھی اس عمل کا حصہ ہے اور وہ امید کر رہے ہیں کہ اس مرکز کے قیام کے بعد وہ تشدد کے کیسز کی بہتر تحقیقات کر سکیں گے اور ضرورت پڑنے پر مجرموں کو سزا بھی دے سکیں گے۔

یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے کہا کہ ابھی تک کوئی بھی ملک خواتین کے خلاف تشدد کو مکمل طور پر ختم نہیں کر سکا۔ اس مسئلے کے حل کے لیے زیادہ سرمایہ کاری، جدید اور مؤثر طریقوں اور مضبوط سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔

ح ف / ج ا (ڈی ڈبلیو)

ڈراموں میں خواتین پر تشدد دکھانے کے خلاف ہوں، سارہ خان