جرمنی سے کابل تک: نائن الیون کے بعد کی کہانی
9 اگست 2011فرٹس اُورباخ کی عمر 52 برس ہے اور اُس کے تین بچے ہیں۔ وہ دریائے رائن کے کنارے پر واقع شہر کیہل میں رہتا ہے اور 1997ء سے وفاقی جرمن فوج سے وابستہ ہے۔
نیویارک، کابل، فیض آباد
''مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ واقعی اصل تصاویر ہیں۔ سب کچھ بہت ہی عجیب، غیر حقیقی اور ناقابل یقین لگ رہا تھا۔‘‘ اور پھر بہت جلد فرٹس اُورباخ کو اس موضوع پر سوچ بچار کرنے پر مجبور ہونا پڑا کہ نیویارک میں ہونے والے یہ حملے خود اُس کے اپنے حالات میں بھی بڑی تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے اٹھتا ہوا دھواں ابھی نیویارک شہر کی فضاؤں کے اوپر ہی تھا کہ دہشت گردوں کے اس حملے کے نتیجے میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حلیف ملکوں کی جانب سے لازمی طور پر ساتھ دینے کی پابندی لاگو ہو گئی۔
ان حملوں کے چند ہی ماہ بعد جرمن پارلیمان کے فیصلے کے نتیجے میں جرمن فوج کو بھی افغانستان کے استحکام کے لیے بین الاقوامی مشن میں شامل ہونا پڑا۔ تب جرمن فوج کی جانب سے عمل میں لائی جانے والی تیاریوں اور منصوبہ بندی میں فرٹس اُورباخ بھی شریک تھا۔ اُس کا کام افغانستان کے دارالحکومت کابل میں تعینات کیے جانے والے جرمن دستے کو منظم کرنا اور اُس کی تربیت کرنا تھا۔
تورا بورا سلام کہتا ہے
2001ء کے اواخر میں اُورباخ نے ترکی میں نیٹو کی ایک مشق میں حصہ لیا۔ تب افغانستان میں عمل میں لایا جانے والا مشن ہی حلیف ممالک کے فوجیوں کے درمیان بات چیت کا مرکزی موضوع تھا۔ اُورباخ کو یاد ہے کہ اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے ’آسمان پر اُن بی 52 بمبار طیاروں کے دھوئیں کی لکیریں دیکھی تھیں، جو تورا بورا پر بمباری کے لیے افغانستان کی جانب محوِ پرواز تھے‘۔ تب اُن کے دل میں اس بات کا قوی احساس پیدا ہوا کہ اب جرمنی بھی اس عمل کا حصہ ہے اور یہ کہ یہ سارا عمل اب ایک ٹھوس شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
تب اپنے کنبے سے زیادہ دیر کے لیے دور رہنا اُورباخ کا معمول بنتا چلا گیا۔ آنے والے برسوں میں اس جرمن فوجی افسر کو بارہا افغانستان کا سفر اختیار کرنا پڑا۔ سب سے پہلا سفر 2003ء کے موسمِ خزاں میں پیش آیا:’’تب بچے ابھی چھوٹے ہی تھے اور میری بیوی شروع سے جانتی تھی کہ جلد یا بدیر مجھے بیرون ملک مشن پر جانا پڑے گا۔‘‘ گھر والوں نے اُورباخ کی ہر ممکن مدد کی تاکہ وہ اپنی ذمہ داریاں پوری طرح سے نبھا سکے: ’’میری بیوی ایک فوجی خاندان سے ہے اور جانتی ہے کہ فوجی ہونے کے لیے کیا قیمت چکانا پڑتی ہے۔‘‘
فیض آباد میں ہلاکتیں
فوجی ہونے کی قیمت کبھی کبھی اپنی جان دے کر بھی چکانا پڑتی ہے، اس کا مشاہدہ آنے والے برسوں میں فرٹس اُورباخ کو بار بار کرنا پڑا۔ اپریل 2010ء میں وہ شمالی افغانستان کے شہر فیض آباد میں تعمیر نو میں مصروف ٹیم کا انچارج تھا، جب اُس کے تین ماتحت فوجی ایک مشن کے دوران ہلاک ہو گئے۔ اُورباخ کے مطابق اُس نے خود اِن فوجیوں کو اِس مشن پر روانہ کیا تھا اور اُن کی ہلاکت اُس کے لیے بہت دکھ کا باعث بنی تھی، اِس لیے بھی کہ بعد میں اُسے ان فوجیوں کے لواحقین کو اطلاع دینے کی ذمہ داری بھی نبھانا پڑی تھی۔ دریں اثناء اُورباخ ایک درجن سے زیادہ بار افغانستان جا چکا ہے۔
فرٹس اُورباخ کے مطابق شروع شروع میں حالات کافی پُر سکون تھے لیکن پھر مسلسل بگڑتے چلے گئے۔ افغانستان میں قیام کے دوران اُورباخ کو بار بار ایسے واقعات کا مشاہدہ ہوا، جو اُسے گیارہ ستمبر کے دہشت پسندانہ واقعات اور افغانستان مشن کی اصل وجہ کی یاد دلاتے تھے۔
اسلامی انتہا پسندی کا بدصورت چہرہ
ستمبر 2010ء میں امریکہ میں کھلے عام قرآن مجید کے نسخے جلانے کے اعلان کے بعد فیض آباد میں جرمن کیمپ کے باہر ایک احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ اُورباخ کو آج بھی وہ منظر یاد ہے: ’’ہم پر پتھر برسائے گئے۔ لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے افغان پولیس نے انتباہی فائرنگ بھی کی۔‘‘ مظاہرین کے نمائندوں کے ساتھ مصالحتی بات چیت کے دوران اُورباخ کی ملاقات ایسے لوگوں سے ہوئی، جو اُسے گیارہ ستمبر 2001ء کے حملہ آوروں کی یاد دلاتے تھے: ’’میرے خیال میں وہ سب کٹر بنیاد پرست لوگ تھے۔ اُن کا اٹھنے بیٹھنے کا جو انداز تھا اور اُن کے جو دلائل تھے، اُنہیں دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا تھا کہ اِسی طرح کے لوگ کسی طیارے کو کسی دہشت پسندانہ حملے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
فرٹس اُورباخ ایک سیاسی سوچ رکھنے والا فوجی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی توقعات کم ہوئی ہیں: ’’ابتدا میں ہم نے سوچا تھا کہ اس ملک کا ہاتھ تھام کر اسے جمہوریت کی طرف لے جائیں گے، جس میں انسانی حقوق اور خواتین کے لیے مساوی حقوق بھی شامل ہیں۔ تاہم تکلیف دہ تجربات کے بعد ہم نے ان توقعات کو خیر باد کہہ دیا ہے۔‘‘ اُورباخ کو البتہ یہ امید ضرور ہے کہ افغان کچھ وقت گزرنے کے بعد اپنی سلامتی خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے تاکہ پھر کبھی بھی اس ملک میں گیارہ ستمبر کے حملہ آوروں جیسے عناصر کو پناہ نہ مل سکے۔
رپورٹ: ڈانیل شیشکے وِٹس / امجد علی
ادارت: مقبول ملک