جرمنی: بچوں پر تشدد اور جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ
20 مئی 2015اس رپورٹ کے مطابق زیادہ تر متاثرہ بچوں کی عمریں چھ برس سے بھی کم ہیں اور انہیں روزانہ کی بنیاد پر مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متاثرہ بچوں کو لاتوں اور مکوں سے نشانہ بنایا جاتا ہے اور بعض اوقات زور سے زمین پر بھی پٹخ دیا جاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود گزشتہ برس بچوں کے خلاف تشدد میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ۔ گزشتہ برس جرمنی میں ہر ہفتے اوسطاﹰ دو بچے تشدد یا پھر غفلت کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ جن بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، ان کی تعداد 14 ہزار تین سو پچانوے بنتی ہے۔
جرمنی میں انسداد جرائم کے وفاقی ادارے کی طرف سے صرف وہی اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، جن واقعات کے بارے میں پولیس کو اطلاع فراہم کی گئی تھی۔ سماجی ماہرین کے مطابق ان واقعات کی اصل تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب یہ تشدد کے صرف وہ واقعات ہیں، جن میں مار پیٹ کے نشانات جسم پر رہ جاتے ہیں۔ جرمن بچوں کے تحفظ کی ایک امدادی ایسوسی ایشن سے وابستہ رائنر بیکر بھی وفاقی ادارے کی اس رپورٹ کی اشاعت میں شامل تھے۔ ان کے مطابق بچوں کو شدید ذہنی اذیتیں بھی پہنچائی جاتی ہیں۔ مثال دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایک بچے کو ساری رات ٹھنڈے پانی میں بٹھا دیا گیا تھا، ’’بہت سے واقعات جان کر آپ دنگ رہ جاتے ہیں۔‘‘
ذہنی تشدد تھپڑ سے بدتر
سزا کے طور پر بچے سے محبت نہ کرنا، پیار سے اُن کے سر پر ہاتھ نہ پھیرنا، ان کو ذاتی توجہ نہ دینا، ایک کمرے میں بند کر دینا، کھانا کم دینا، تنہا رہنے دینا، انہیں دھمکی دینا یا ڈرانا جرمن قوانین کے مطابق جرم تو نہیں ہے لیکن ڈاکٹروں کی نظر میں نفسیاتی تشدد ضرور ہے۔ ماہرین کے مطابق ذہنی یا نفسیاتی تشدد بچے پر مار پیٹ سے بھی زیادہ منفی اثرات چھوڑتا ہے۔ نفسیاتی تشدد کے اثرات یہ ہیں کہ بچے خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، ان کی شخصی نشوونما متاثر ہوتی ہے، نیند پوری نہیں ہوتی، برے خواب آتے ہیں، بستر پر ہی پیشاب کرنا شروع کر دیتے ہیں، بے چین رہتے ہیں اور انہیں بولنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
جرمنی میں کوبلینز یونیورسٹی کے سوشل سائنسز ڈیپارٹمنٹ کی پروفیسر کاتینکا بیکمان اس شعبے میں بہت زیادہ تحقیق کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’ سب سے بری چیز یہ ہوتی ہے کہ بچوں اور ان کی پرورش کرنے والوں کے مابین عدم اعتماد پایا جائے۔ زیادہ تر جرائم پیشہ افراد کا تعلق ایسے ہی ماحول والے خاندانوں سے ہوتا ہے۔‘‘
وہ کہتی ہیں اکثر ان بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جو مسلسل بیمار رہتے ہیں یا پھر اپاہج ہوتے ہیں۔ والدین کے لیے ایسے بچوں کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ والدین کی آپس کی لڑائی بھی بچوں پر تشدد کی وجہ بنتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف غربت کو بچوں پر تشدد کی وجہ قرار دینا ناانصافی ہو گی۔
جرمنی میں کسی بچے کو مار پیٹ کا نشانہ بنانا قانوناﹰ جرم ہے۔ جبکہ حکومت نے بچوں کے خلاف تشدد کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف قسم کے پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں بھی حکومت اور والدین کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں جبکہ اسکول کے اساتذہ اور ڈاکٹر بھی اس معاملے میں سرکاری حکام کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ والدین بچوں کو مار پیٹ کا نشانہ بنا سکتے ہیں، اس صدیوں پرانے رواج کے خلاف جرمنی میں سن دو ہزار میں بچوں کی ’غیر متشدد پرورش‘ کا قانون پاس کیا گیا تھا۔