1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی آنے والے تارکين وطن کی شرح بيس برس کی اونچی ترين سطح پر

عاصم سليم23 مئی 2014

2013ء ميں جرمنی کا رخ کرنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں اس سے پچھلے سال کے مقابلے ميں اٹھارہ فيصد کا اضافہ ريکارڈ کيا گيا۔ گزشتہ سال جرمنی ميں نئے تارکين وطن کی تعداد پچھلے بيس برس کی اپنی سب سے اونچی سطح پر رہی۔

https://p.dw.com/p/1C4v0
تصویر: Getty Images

جرمنی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2013ء ميں ’نيٹ اميگريشن‘ 437,000 رہی۔ نيٹ اميگريشن کسی ملک سے جانے والے اور اس ملک کا رخ کرنے والے تارکين وطن کی تعداد کے فرق کو کہا جاتا ہے۔ سن 1993ء کے بعد نئے تارکين وطن کی آمد کے حوالے سے يہ سب سے اونچی سطح ہے۔

نيوز ايجنسی روئٹرز کے مطابق يورو زون کے اقتصادی بحران سے متاثر ہونے والے يورپی ممالک، بالخصوص اسپين، اٹلی اور پولينڈ سے بھی ہزاروں افراد نے يورپ کی سب سے مستحکم معيشت کے حامل ملک جرمنی کا رخ کيا۔ اٹلی سے جرمنی آنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں 2012ء کے مقابلے ميں 2013ء ميں باون فيصد اضافہ ريکارڈ کيا گيا اور نيٹ اميگريشن لگ بھگ بتيس ہزار رہی۔ اسپين سے جرمنی آنے والے تارکين وطن کی اس شرح ميں بھی انيس فيصد کا اضافہ ديکھا گيا اور تقريبا بائيس ہزار ہسپانوی باشندے جرمنی آئے۔

تاہم يونان سے جرمنی آنے والے تارکين وطن کی تعداد ميں قريب نو فيصد کمی ريکارڈ کی گئی۔ يونان وہ ملک ہے، جہاں سے يورو زون کا اقتصادی بحران شروع ہوا تھا۔

جرمنی آنے والے تارکين وطن کی سب سے زيادہ تعداد بدستور پولينڈ سے آئی۔ نيٹ اميگريشن کی تعداد بہتر ہزار رہی يعنی اگر پولينڈ سے جرمنی جانے والوں کی کُل تعداد ميں سے ايسے افراد کو خارج کر ديا جائے، جنہوں نے جرمنی سے پولينڈ کا رخ کيا، تو پھر بھی 2013ء ميں بہتر ہزار نئے پولش شہری جرمنی آئے۔

Angela Merkel 2014 ernste Mimik
’يورپی يونين کوئی ويلفيئر يونين نہيں ہے،‘ جرمن چانسلر انگيلا ميرکلتصویر: picture-alliance/dpa

عام طور پر جرمنی تارکين وطن کی آمد سے فائدے ميں رہتا ہے۔ کئی اندازوں کے مطابق 2050ء تک جرمن آبادی کا ايک تہائی حصہ پينسٹھ برس سے زيادہ عمر کے افراد پر مشتمل ہو گا اور آبادی ميں بھی کمی کا امکان ہے۔ کئی ماہر اقتصاديات کے اندازوں کے مطابق 2020ء تک جرمنی ميں قريب ڈيڑھ ملين پيشہ وارانہ صلاحيتوں کے حامل افراد کی کمی ہو گی۔

گزشتہ سال کے اختتام پر جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی ميں 7.6 ملين رجسٹرڈ غير ملکی باشندے مقيم ہيں۔ يہ تعداد 1967ء ميں محکمہ شماريات کے آغاز سے اب تک کی سب سے زيادہ تعداد ہے۔

جرمن صدر يوآخم گاؤک نے اپنی ايک حاليہ تقرير کے دوران جرمن شہريوں پر زور ديا کہ وہ غير ملکيوں کو کھلے دل سے قبول کريں۔

دوسری جانب تارکين وطن کی جرمنی آمد کے حوالے سے ايک بحث بھی جاری ہے۔ ايسے خدشات پائے جاتے ہيں کہ متعدد غريب يا معاشی عدم استحکام کے شکار ملکوں سے تارکين وطن جرمنی کی بہتر مالی صورتحال اور ويلفيئر کے نظام سے فائدہ اٹھانے کے ليے جرمنی کا رخ کرتے ہيں۔ يہ موضوع رواں ہفتے کے اختتام تک جاری رہنے والے يورپی پارليمان کے انتخابات سے پہلے سياسی مہموں کا حصہ رہا ہے۔

جرمن چانسلر انگيلا ميرکل نے جمعرات بائيس مئی کے روز کہا، ’’يورپی يونين کوئی ويلفيئر يونين نہيں ہے۔‘‘ جرمن جريدے اشپيگل کے آن لائن ايڈيشن پر ميرکل کے حوالے سے لکھا گيا ہے کہ جرمنی يورپی يونين کے ديگر ملکوں سے جرمنی آنے والے ايسے افراد کو بے روزگاری الاؤنس کی ادائيگی محدود کرنا چاہتا ہے، جو محض ملازمت ڈھونڈنے کے ليے جرمنی آتے ہيں۔