جرمن چانسلر میرکل کینیڈا کے دورے پر
15 اگست 2012انگیلا میرکل اس سے قبل جی ایٹ کی سمٹ میں شرکت کے لیے سن 2010 میں وسطی اونٹاریو کے شہر مَسکوکا (Muskoka) اور جی ٹوئنٹی (G20) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ٹورانٹو جا چکی ہیں۔ اس طرح وہ آج سے کینیڈا کے پہلے سرکاری دورے پر ہیں۔ ان دونوں سربراہی کانفرنسوں کے دوران جرمن چانسلر اور کینیڈین وزیراعظم کے درمیان ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔
اس دو روزہ دورے کے دوران جرمن چانسلر کینیڈا کے وزیراعظم اسٹیفن ہارپر کے ساتھ جرمنی اور کینیڈا کے باہمی تعلقات اور تجارتی روابط کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کو درپیش اقتصادی مسائل پر خاص طور پر گفتگو کریں گی۔ تجارتی معاملات کے حوالے سے برلن حکومت کی خواہش ہے کہ ہارپر حکومت مزید مثبت اقدامات تجویز کرے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم اسٹیفن ہارپر گروپ ایٹ (G8) کے ممالک میں دوسرے سب سے زیادہ عرصے تک حکومت کرنے والے وزیراعظم ہیں۔ ہارپر کا کہنا ہے کہ جرمن چانسلر کے ساتھ وسیع البنیاد موضوعات پر گفتگو کی جائے گی۔ کینیڈا کے وزیراعظم نے آزاد تجارتی معاہدے کے حوالے سے کہا کہ کینیڈا اور یورپی یونین مشترکہ طور پر اس مناسبت سے مذاکرات کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ ہارپر کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمن چانسلر کے ساتھ عالمی تجارتی مسائل پر بھی بات چیت ہو گی۔ کینیڈا کے وزیراعظم کی جانب سے ان خیالات کا اظہار جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے دورہٴ کینیڈا سے قبل جاری ہونے والے بیان میں کیا گیا۔
کینیڈا کی یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے حوالے سے بات چیت بھی دونوں رہنماؤں کی گفتگو کے ایجنڈے پر ہے۔ سن 2009 سے جاری آزاد تجارتی معاہدے پر کینیڈا اور یورپی یونین ابھی تک پیدا شدہ پیچیدگیوں کو دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ فریقین کی خواہش ہے کہ رواں برس کے اختتام تک کینیڈا اور یورپی یونین فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو حتمی شکل دے دیں۔ ستائیس رکنی یورپی یونین کے ساتھ کینیڈا کے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کو خاصی اہمیت حاصل ہے۔ کینیڈا کے لیے یہ دوسرا بڑا معاہدہ ہو گا۔ کینیڈا نے سن 1994 میں امریکا اور میکسیکو کے ساتھ شمالی امریکی فری ٹریڈ ایگریمنٹ کیا تھا۔ دوسری جانب کینیڈا کے ماحول دوست، کسان اور دوسرے ورکر اس ڈیل کی مخالفت کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو گلوبل اکانومی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ جرمنی کو بھی کینیڈا کے صوبوں اور مقامی حکومتوں کے اُس رویے کا سامنا ہے، جس کے تحت وہ اپنے ملک کی مصنوعات کو ترجیحی بنیادوں پر خریدنے کو فوقیت دے رہے ہیں۔ یہ معاملہ یقینی طور پر جرمنی کے لیے باعث تشویش ہے۔
ah/ng (AFP)