جرمن چانسلر میرکل کا دورہ ترکی، ڈوئچے ویلے کا تبصرہ
26 فروری 2013ترک وزیراعظم رجیب طیب ایردوان اس حوالے سے شہرت رکھتے ہیں کہ وہ قبرص کے تنازعے کو سیاسی طور پر حل کرنے کی حمایت نہیں کرتے۔گنگوئر کہتے ہیں کہ جنوبی قبرص کے معاملے میں ترک رویے میں معمولی سی بھی لچک دکھائی نہیں دیتی اور وہ اسے نہ تو ایک ریاست تسیلم کرتا ہے اور نا ہی یورپی یونین کا رکن ماننے پر تیار ہے۔
ترک وزیر اعظم ایردوان نے دو ٹوک الفاظ میں یورپی رہنماؤں سے سوال کیا کہ آیا وہ واقعی یورپی یونین میں ترکی کی شمولیت کے لیے عمل کی تائید کر بھی رہے ہیں۔ گنگوئر Güngör کے بقول ترک وزیر اعظم کو یہ پوچھنے کا حق بھی حاصل ہے۔ جرمن چانسلر میرکل نے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر واضح انداز میں اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ چانسلر میرکل نے جیلوں میں مقید ترک صحافیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا۔ ترک جیلوں میں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ حکومت گرانے کی کوشش کرنے والوں، دہشت گردوں اور کالعدم تنظیموں کے کئی ارکان بھی قید ہیں۔
گنگوئر کے تبصرے کے مطابق اس صورتحال نے ترکی اور جرمنی کے مابین دوستی کے اس ماحول کو محدود بنا دیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہونے والے کاروبار کا حجم تیس ارب یورو بنتا ہے۔ ترکی میں موجود جرمن کمپنیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین متعدد تجارتی منصوبوں پر بھی کام جاری ہے۔ اس موقع پر تبصرہ نگار یہ سوال کرتا ہے کہ کیا تاریخی دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے یہ سب کچھ کافی ہے؟ شاید نہیں۔
ترکی میں مذہبی اقلیتیں بھی ایک مسئلہ ہیں۔ بہت ساری آزادیوں کے باوجود بھی یہ ترک معاشرے میں صحیح انداز میں پنپ نہیں پا رہیں۔ ترکی میں کام کرنے والی ایک جرمن فاؤنڈیشن نے میرکل کے بیانات کی تعریف کی ہے۔ انقرہ حکومت کی نظر میں یہ جرمن فاؤنڈیشن ترک مفادات کےخلاف کام کرتی ہے اور اسی وجہ سے اس پر کئی مرتبہ حملے بھی ہو چکے ہیں۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اقتصادی اور سیاسی دنیا میں بہت فرق ہے۔ ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار باہا گنگوئر کہتے ہیں کہ تجارتی کمپنیوں کو انتخابات جیتنے کی ضرورت نہیں ہوتی اور انہیں خوشی صرف تجارت کے فروغ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ تاجروں سے پوچھا جائے تو وہ فوراً ہی ترکی کو یورپی یونین میں شامل کر لیں لیکن سیاست میں انتخابات ہی فیصلہ کن کردارادا کرتے ہیں۔
B.Güngor / ai / zb