جرمن چانسلر شولس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب
16 دسمبر 2024جرمن چانسلر اولاف شولس کو بنڈس ٹاگ کہلانے والے وفاقی پارلیمان کے ایوان زیریں سے آج سولہ دسمبر بروز پیر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ شولس نے مخلوط حکومتی اتحاد کے ٹوٹ جانے کے بعد وفاقی پارلیمان سے اعتماد کا ووٹ لینے کا اعلان کیا تھا۔ جرمن چانسلر کی پارلیمان سے اعتماد کا یہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کے بعد جرمنی میں آئندہ سال فروری میں نئے عام انتخابات کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ تقریباً 394 قانون سازوں نے حکومت کے خلاف جبکہ 207 نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔
اس دوران پارلیمان کے ایوان زیریں میں 116 اراکین غیر حاضر رہے، جس سے شولس کو جیتنے کے لیے درکار 367 ووٹوں کی اکثریت حاصل نہ ہو سکی۔ اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ بجٹ پر تنازعات کے بعد فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) نےشولس کی سینٹر لیفٹ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) اور گرینز کے ساتھ مل کر بنائی گئی مخلوط حکومت چھوڑنے کے بعد کیا تھا۔
اب صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر کے پاس پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے مزید 21 دن کا وقت ہو گا۔
اعتماد کے ووٹ کی ضرورت کیوں پڑی؟
چانسلر اولاف شولس نے اپنی حکومت کی اتحادی جماعت فری ڈیموکریٹک پارٹی (ایف ڈی پی) کے رہنما اور وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر کو برطرف کر دیا تھا اور اس کے بعد اس پارٹی نے حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی تھی۔
جرمنی: سوشل ڈیموکریٹس میں اگلے چانسلر کی نامزدگی پر کشمکش
اس وقت سے چانسلر اولاف شولس کی حکومت پارلیمان میں اقلیت میں تھی اور انہوں نے اسی پس منظر میں اعتماد کے ووٹ کے لیے درخواست دی تھی۔
مخلوط حکومت کا خاتمہ ایس ڈی پی اور ایف ڈی پی کے درمیان کئی مہینوں کے تنازعے کے بعد سامنے آیا تھا۔ واضح رہے کہ چانسلر شولس اور وزیر خزانہ لِنڈنر کے درمیان آئندہ وفاقی بجٹ اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے کافی اختلاف تھے۔
جرمنی میں قبل از وقت انتخابات تیئیس فروری کو کرانے پر اتفاق
دسمبر میں پارٹیوں کی مقبولیت کیسی رہی؟
عوامی جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ چانسلر شولس کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی قدامت پسند یونین جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور سی ایس ایو کے اتحاد کے رہنما فریڈرش میرس سے مقبولیت میں کافی پیچھے ہے۔
ان جائزوں کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی مقبولیت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور امکان ہے کہ یہ جماعت وفاقی پارلیمان میں دوسری یا تیسری بڑی سیاسی طاقت بن سکتی ہے۔
جرمنی: چانسلر شولس اسی برس اعتماد کے ووٹ کے لیے تیار
البتہ اے ایف ڈی کی رہنما ایلس ویڈل کے چانسلر بننے کا امکان بہت کم ہے کیونکہ دوسری جماعتوں نے یہ بات کھل کر کہہ رکھی ہے کہ وہ ان کی جماعت کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں کریں گی۔ سابق وزیر خزانہ کرسٹیان لِنڈنر کی جماعت ایف ڈی پی اس وقت سب سے کم مقبول جماعت ہے، جسے صرف پانچ فیصد ووٹرز کی حمایت حاصل ہے۔
سوشلسٹ لیفٹ پارٹی کی مقبولیت بھی نچلی سطح پر ہے، تاہم وہ اب بھی انتخابی حلقوں سے کم از کم تین سیٹیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے۔
ش ر، ص ز/ م م (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)