1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی احتیاطی قرنطینہ میں

22 مارچ 2020

جرمن چانسلر انگیلا میرکل کورونا وائرس کے خطرے کی وجہ سے احتیاطی قرنطینہ میں چلی گئی ہیں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق میرکل کی ایک ایسے ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی تھی، جس میں اب کورونا وائرس کی تشخیص ہو گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3Zt0g
تصویر: AFP/M. Kappeler

چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان اشٹیفن زائبرٹ کے مطابق اتوار کو پریس کانفرنس کے فوری بعد چانسلر کو جب یہ بتایا گیا کہ جس ڈاکٹر نے انہیں ویکسین تجویز کی تھی اس کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے، تو انہوں نے فوری طور پر قرنطینہ میں جانے کا فیصلہ کر لیا۔

Deutschland PK Coronavirus Angela Merkel Kontaktverbot
تصویر: Reuters/M. Kappeler

پینسٹھ سالہ میرکل نے اس پریس کانفرنس میں جرمنی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ  کو روکنے کے تناظر میں نئے اقدامات کا اعلان کیا تھا۔

زائبرٹ نے مزید بتایا کہ گزشتہ جمعے کو احتیاطی تدبیر کے طور پر انگیلا میرکل کو ایک ویکسین دی گئی تھی۔ ان کے بقول اگلے چند دنوں کے دوران میرکل کے باقاعدگی سے مختلف ٹیسٹ کیے جائیں گے اور فی الحال وہ اپنے گھر سے ہی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی۔

اس پریس کانفرنس میں میرکل نے ان جرمن شہریوں کی تعریف کی تھی، جو اپنے سماجی رابطوں کو محدود کرنے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کی حکومتی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں۔ ان کے بقول یہ ضروری ہے کہ عام شہری ایک دوسرے سے کم از کم ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ رکھیں

جرمنی میں کووڈ انیس کے زیادہ تر متاثرہ افراد میں اس مرض کی کم شدید یا معمولی علامات پائی جاتی ہیں۔ ایسے عمر رسیدہ افراد کو خاص طور پر زیادہ شدید مسائل کا سامنا ہے، جو پہلے سے ہی کسی اور مرض، جیسے نمونیا وغیرہ میں مبتلا تھے۔

میرکل نے اس پریس کانفرنس میں کہا تھا، ''ایک خاص فاصلے کے ساتھ انفیکشن کے خطرے کو تقریباً ختم کیا جا سکتا ہے۔اس سے بہت فرق پڑتا ہے کہ آپ کسی سے نصف میٹر کے فاصلے پر ہیں یاڈیڑھ میٹر فاصلے پر۔” اس بیان کے چند لمحوں بعد ہی میرکل کو یہ بتایا گیا کہ ان کے ڈاکٹر کا کووڈ انیس کا ٹیسٹ مثبت آیا ہے۔

اس تازہ پیش رفت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عالمی رہنما بھی کس طرح اس انفیکشن کے خطرے میں گھرے ہوئے ہیں۔

امریکا کے جان ہاپکنز انسٹیٹیوٹ کے مطابق اتوار کی رات گئے تک جرمنی میں کووڈ انیس سے متاثرہ افراد کی تعداد چوبیس ہزار کے لگ بھگ ہو چکی تھی جبکہ جرمنی میں اب تک تقریباً اسی افراد اس مرض کے باعث موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

برلن کے شہری لاک ڈاؤن کے خوف سے کیسے نمٹ رہے ہیں؟

 ع ا / م م