جرمن چانسلر انگیلا میرکل براعظم افریقہ کے دورے پر
9 اکتوبر 2016اس سے پہلے چانسلر میرکل نے آخری مرتبہ براعظم افریقہ کا دورہ پانچ سال قبل 2011ء میں کیا تھا۔ اپنے موجودہ دورے کے دوران میرکل مہاجرت کے اقتصادی اسباب پر بھی قابو پانے کی کوشش کریں گی۔
اُن کے اِس دورے کی پہلی منزل مالی ہے، جہاں دارالحکومت بماکو میں وہ نہ صرف وہاں کے سربراہِ مملکت ابراہیم بوبکر کیتا کے ساتھ ملاقات کریں گی بلکہ اُن جرمن فوجیوں کے ساتھ بھی ملیں گی، جو اس مغربی افریقی ملک میں اقوام متحدہ کے ایک امن مشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
میرکل مالی کا دورہ کرنے والی پہلی جرمن سربراہِ حکومت ہیں۔ مالی کا شمالی حصہ سن 2012ء میں مسلمان انتہا پسند باغیوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔ شمالی مالی کو مستحکم بنانے میں مدد دینے کے لیے اقوام متحدہ نے جو امن دستہ وہاں متعین کر رکھا ہے، اُس میں 550 جرمن فوجی بھی شامل ہیں۔
مالی کسی زمانے میں فرانس کی نو آبادی رہا تھا۔ سن 2013ء کے اوائل میں فرانس کی مداخلت کے نتیجے میں باغیوں کو پیچھے دھکیل دیا گیا تھا تاہم اُس علاقے میں مسلح گروہ آج بھی سرگرم عمل ہیں۔
میرکل کے ایجنڈے کا ایک اہم نکتہ یورپ کی جانب مہاجرت کی رفتار کو کم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے میرکل اپنی ملاقاتوں کے دوران افریقی ملکوں میں سرمایہ کاری کے حالات اور اقتصادی استحکام کی ضرورت پر بھی بات کریں گی۔ اپنی روانگی سے ایک روز قبل قوم کے نام اپنے ہفتہ وار ویڈیو پیغام میں میرکل نے کہا:’’میرے خیال میں ہمیں افریقہ کے معاملات میں اب تک کے مقابلے میں کہیں زیادہ دلچسپی لینی چاہیے۔ افریقہ کی خوشحالی جرمن مفاد میں ہے۔‘‘
مالی کے بعد پیر کے روز جرمن چانسلر نائجر جائیں گی۔ نائجر اور مالی کو ایسے ممالک کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جن سے گزر کر تارکین وطن یورپ کا رُخ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی، فرانس اور اٹلی ان دونوں ملکوں کے ساتھ زیادہ قریبی اشتراکِ عمل کے لیے کوشاں ہیں۔
منگل کو جرمن چانسلر ایتھوپیا کے دارالحکومت ادیس ابابا جائیں گی، جہاں افریقی یونین کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ وہاں میرکل افریقی یونین کے امن و سلامتی کے مرکز کی اُس عمارت کا افتتاح کریں گی، جس کے لیے مالی وسائل جرمنی نے فراہم کیے ہیں۔
سن 2015ء میں آٹھ لاکھ نوّے ہزار مہاجرین پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق شام اور افغانستان سے تھا جبکہ بہت سے وہ افراد بھی تھے جو افریقی ممالک میں غربت سے تنگ آ کر ہجرت پر مجبور ہوئے تھے۔