جرمن صنعتی شعبے کا غیر ملکی سپلائرز پر انحصار کتنا خطرناک؟
3 جولائی 2024جرمنی میں ایک عرصے سے ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ ملکی صنعت کا غیر ملکی سپلائرز پر انحصار کم کیا جائے لیکن اس کے باوجود کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد سے اس ملک کی صنعتوں کا بیرونی ممالک پر انحصار بڑھ چکا ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس حوالے سے ایک نئی تحقیق بدھ تین جولائی کے روز شائع کی گئی ہے۔
باویرین بزنس ایسوسی ایشن کی جانب سے پروگنوس انسٹیٹیوٹ کے ذریعے کرائے گئے اس مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود زیادہ تر شعبوں میں معمولی اضافے کے ساتھ براہ راست درآمدی انحصار بدستور برقرار ہے۔
اس مطالعے کے مطابق چین جرمنی کے تمام شعبوں میں بنیادی مصنوعات اور پرزے فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ اس کے بعد امریکہ اور پھر فرانس کا نام آتا ہے۔
دنیا بھر سے درآمد شدہ بنیادی مصنوعات کی مالیت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آٹوموٹو انڈسٹری 62 بلین یورو (66.6 بلین ڈالر) کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد کیمیکل اور مکینیکل انجینئرنگ کے شعبے ہیں، جن میں سے ہر ایک شعبے میں37 بلین یورو کی درآمدات کی جاتی ہیں۔
جرمن کمپنیوں کے لیے بھارت میں ترقی کے مضبوط مواقع، سروے
اس مطالعے کے مصنفین نے ان شعبوں میں صرف چند اہم سپلائر ممالک سے ''درآمدات کے ارتکاز‘‘ پر روشنی ڈالی ہے۔ جن دیگر شعبوں میں بنیادی مصنوعات درآمد کی جا رہی ہیں، ان میں زراعت، کان کنی اور ٹیکسٹائل کی صنعتیں بھی شامل ہیں۔
ماہرین کے مطابق آٹوموٹو انڈسٹری اور مکینیکل انڈسٹری میں سپلائرز کی تعداد کافی زیادہ ہے اور ان دو شعبوں میں سپلائی چین کو لاحق خطرہ کم ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر کوئی ایک ملک بنیادی مصنوعات فراہم کرنے سے انکار کرتا ہے، تو جرمنی کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ یہی مصنوعات کسی دوسرے ملک سے خرید سکے۔
تاہم جرمن پالیسی سازوں کو خبردار کرتے ہوئے اس مطالعے میں کہا گیا ہے کہ کیمیکلز، فارماسیوٹیکل، ڈیٹا پروسیسنگ، الیکٹرانکس اور آپٹکس جیسے اہم شعبوں میں مقامی متبادلات محدود ہیں اور ان شعبوں میں درآمدات کا زیادہ ارتکاز پایا جاتا ہے، جسے متنوع بنانے کی ضرورت ہے۔
اس اسٹڈی میں اس خطرے سے بھی آگاہ کیا گیا ہے کہ سپلائی چین میں رکاوٹ کی صورت میں مخصوص ممالک سے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار جرمنی کی صنعتی پیداوار میں ممکنہ طور پر نمایاں خلل کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ا ا / م م (ڈی پی اے)