جرمن، ترک تعلقات میں پیشرفت
6 ستمبر 2018جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس دو روزہ دورے پر بدھ پانچ ستمبر کو انقرہ پہنچے تھے۔ اس دورے کا مقصد ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے جرمنی اور ترکی کے کشیدہ تعلقات کو بہتر کرنے کی کوشش تھی۔ 2016ء میں ہونے والی اس ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی نے ہزاروں لوگوں کو حراست میں لے لیا تھا جن میں کچھ جرمن شہری بھی شامل ہیں۔
امریکا کی طرف سے ترکی کے خلاف پابندیوں کی وجہ سے ترکی معاشی مشکلات کا شکار ہے۔ یورپ کی امیر ترین معیشت جرمنی کے حکام کی نظر میں ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کا یہ ایک اچھا موقع ہے اور جس کا فائدہ ممکنہ طور پر ترکی میں زیر حراست جرمن شہریوں کو بھی پہنچ سکتا ہے۔
تاہم ہائیکو ماس کے انقرہ کے اس دورے اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن اور وزیر خارجہ مولود چاؤش اولو کے ساتھ ملاقاتوں کے دوران ایک اور معاملہ بھی اہم رہا اور یہ ترک سرحد کے قریب شامی صوبہ ادلب میں شامی فورسز کے ممکنہ فوجی آپریشن سے متعلق ہے۔
ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران مولود چاؤش اولو نے کہا کہ ادلب میں فوجی کارروائی کی صورت میں وہاں سے جان بچا کر نکلنے والے مہاجرین ممکنہ طور پر تُرکی اور یورپی ممالک کا رُخ کریں گے۔
ترکی جو شامی صدر بشارالاسد کے مخالف باغیوں کی حمایت کرتا ہے، 3.5 ملین سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ بھی دیے ہوئے ہے۔ 2015ء میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجرین کی یورپ آمد کے بعد اِس وقت یورپی یونین بڑی تعداد میں ایسے مہاجرین کو یورپ پہنچنے سے روکنے کے لیے ترکی پر انحصار کر رہا ہے۔
ترکی، ایران اور روس کے سربراہان کی ملاقات کل جمعہ سات ستمبر کو ایران میں ہو رہی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس ملاقات میں اہم ترین موضوع ادلب کے حوالے سے پیدا ہونے والی صورتحال ہو گی۔
انقرہ میں پریس کانفرنس کے دوران جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا تھا، ’’اگر خطے میں لڑائی ہوتی ہے تو جرمنی انسانی بنیادوں پر اپنی امدادی کوششوں کو دو گنا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘‘
اس موقع پر ماس نے مزید کہا کہ انہوں نے ترک حکام کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں وہاں زیر حراست جرمن شہریوں کی رہائی کا معاملہ بھی اٹھایا تاہم انہوں نے اس کے نتیجے کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ خیال رہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن رواں ماہ برلن کا دورہ بھی کر رہے ہیں۔
ا ب ا / ع ا (روئٹرز)