جرمن اسلحہ سازوں کا کاروبار چمکنے کے امکانات
25 مارچ 2022چند مہینے قبل کی بات ہے کہ یورپی شہریوں کا خیال تھا کہ اب اس براعظم کی سرزمین پر جنگ نہیں ہو گی لیکن یہ خام خیالی ثابت ہوئی۔ رواں برس چوبیس فروری سے یوکرین میں روسی فوجیں داخل ہو گئیں۔
کیا جرمنی امریکی ساخت کے ایف 35 جنگی طیارے خرید رہا ہے؟
ابھی تک کئی شہروں میں جنگ جاری و ساری ہے۔ یہ نیا جنگی سلسلہ سرد جنگ کے ختم ہونے کے تیس برس بعد شروع ہوا۔ ایسا بھی کہا جا رہا ہے کہ روس کی یوکرینی جنگ امکانی طور پر روایتی ہتھیاروں کے حوالے سے خیالات کو بھی تبدیل کر سکتی ہے۔
ہتھیار سازی اور یورپی یونین کی گرین اکانومی
ہتھیار ساز صنعت نے حالیہ برسوں میں ملازمین کی مراعات میں کمی کی تھی کیونکہ سرمایہ کار پیچھے ہٹتے جا رہے تھے۔ اس انڈسٹری کو بھی سرمایہ کاروں کی جانب سے ماحولیاتی یعنی انوائرمنٹل، سماجی یا سوشل اور کارپوریٹ (ESG) معیارات کا سامنا ہے۔
یورپی یونین بھی موجودہ حالات میں ای ایس جی کے معیار کا حامی دکھائی دیتی ہے۔ اس مناسبت سے ضوابط ابھی بنائے جا رہے ہیں اور ان کی منظوری کے بعد ہی ماحول دوست اقتصادی سرگرمیوں کا مناسب انداز میں احاطہ کیا جا سکے گا۔
جرمن سیاستدانوں کے پاس آپشن محدود ہیں، جرمن فوج کے سربراہ
اس وقت دفاعی ہتھیار سازی کے لابی گروپ اور مالیاتی ادارے اس کوشش میں ہیں کہ یورپی یونین کے ای ایس جی ضوابط کا اطلاق کسی طور ہتھیار سازی کی انڈسٹری پر نہ ہو۔ سویڈن کے ایک اہم بینک SEB نے دفاعی سیکٹر میں سرمایہ کاری کے لیے ایک مخصوص بجٹ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسری جانب روس کی یوکرین پر چڑھائی کے بعد شروع ہونے والی جنگ نے ہتھیار ساز انڈسٹری کو ایک نئی قوت فراہم کی ہے۔ برلن حکومت یوکرین کی حمایت، روس کے ساتھ کوئی تعلق رکھے بغیر جاری رکھنا چاہتی ہے۔ اس مناسبت سے کییف کو جرمنی کی جانب سے معیاری ہتھیاروں کی ترسیل جاری ہے۔ ملکی پالیسی میں ایک اور بنیادی تبدیلی یہ کی گئی کہ جرمن حکومت نے یوکرین سے ڈیڑھ ہزار ٹینک شکن اور طیارہ شکن میزائل دینے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
ہتھیار سازوں کی حوصلہ افزائی
یوکرین کے مسلح تنازعے سے یورپی حکومتوں کو بھی یہ خیال آیا کہ انہیں بھی اب اپنی افواج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی ایک ماہ قبل امریکی دباؤ کے تحت جرمنی نے بھی ملکی فوج کو جدید بنانے کے لیے ایک سو بلین یورو کا خصوصی فنڈ مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مالی فوجی مشن ختم نہیں کیا جائے گا، جرمن وزیر دفاع
اس مناسبت سے جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا تھا کہ ان کا ملک اپنی آزادی اور جمہوریت کے تحفظ اور دفاع کے لیے مزید سرمایہ کاری کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ اس اعلان کے بعد جرمن بازارِ حصص میں ہتھیار ساز فیکٹریوں کے شیئرز میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ہتھیار بنانے والے ملکی دفاع کے ساتھ ساتھ آزاد جمہوریت کی اقدار کو جہاں مضبوط کرتے ہیں وہاں جارحیت کے خلاف ایک قوت بھی فراہم کرتے ہیں۔
یورپ میں ایک مشترکہ دفاعی اتحاد بنانے کی تجویز
ہتھیار سازی اور ماحول پسندی کے حوالے سے جرمنی کی کاسل یونیورسٹی کے پروفیسر برائے پائیدار سرمایہ کاری کرسٹیان کلائن کا کہنا ہے کہ ہتھیار بنانے کا عمل کسی بھی صورت میں پائیدار سرمایہ کاری کے زمرے میں نہیں آتا۔ دوسری جانب ایک اور ادارے مرفی اینڈ اشپٹس کے ڈائریکٹر اینڈریو مرفی کا کہنا ہے کہ پائیدار انڈسٹری نے ہی کئی ممالک کو مطلق العنان حکومتوں سے نجات دلائی تھی۔
کرسٹی پلاڈسن (ع ح/ ع ا)