جاپان، پانچ سال میں جلد چھٹا وزیر اعظم
23 اگست 2011پانچ برس کے دوران جاپان کا چھٹا وزیر اعظم بننے کی دوڑ میں اب 49 سالہ سابق وزیر خارجہ سِیجی ماایہارا بھی شامل ہوگئے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اس دوڑ میں ان کی شمولیت کے باعث اب موجودہ وزیر مالیات یوشی ہیکو نوڈا کے وزیر اعظم بننے کے امکانات مخدوش ہوگئے ہیں۔ چونکہ جاپان کی ڈیموکریٹک پارٹی (DJP) کو ملک کے ایوان زیریں میں سبقت حاصل ہے، اس لیے اگلے ہفتے ہونے والے انتخابات میں جس رہنما کو بھی پارٹی سربراہ چنا گیا، وہی وزیر اعظم بھی بن جائے گا۔
جاپان کے نئے سربراہ حکومت کو جن فوری مسائل کا سامنا ہوگا، ان میں سے ایک اہم مسئلہ ملکی کرنسی ین کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو پانا ہے، کیونکہ اس باعث جاپانی برآمدات کو خطرات لاحق ہیں۔ اس کے علاوہ مارچ میں آنے والے شدید زلزلے اور سونامی کے باعث تباہ حال بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور اسی سبب شدید متاثر ہونے والے فوکوشیما ایٹمی بجلی گھر سے تابکاری کے اخراج کے باعث پیدا شدہ بحران بھی نئے وزیراعظم کے لیے کٹھن امتحانات ثابت ہوں گے۔
دوسری طرف اس بات پر بھی تحفظات موجود ہیں کہ کیا نئے وزیر اعظم بھی ملکی سیاسی معاملات اور انتظامی پریشانیوں پر قابو پا سکیں گے یا وہ بھی سابق وزرائے اعظم کی طرح غیر مقبول ہوکر ناکامی ہی کا منہ دیکھیں گے؟ وجہ یہ ہے کہ جہاں ایک طرف ملکی پارلیمان کئی دھڑوں میں تقسیم ہے تو دوسری جانب حکمران ڈیموکریٹک پارٹی میں پالیسیوں اور ذاتیات کی بنیاد پر خلیج موجود ہے۔
جاپانی ووٹروں میں ناؤ تو کان کی مقبولیت کا گراف 20 فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ انہوں نے جون میں اعلان کیا تھا کہ بعض ضروری معاملات نمٹانے کے بعد وہ بہت جلد اپنا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ اب جب کہ جاپانی پارلیمان میں بعض اہم قانونی بل اسی ہفتے پاس کیے جانے ہیں، حکمران ڈیموکریٹک پارٹی 29 اگست کو نئے سربراہ کا انتخاب کرے گی۔ ان قانونی بلوں میں قابل تجدید توانائی میں اضافے کا بل بھی شامل ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: امجد علی