جاسوسی کے پروگراموں کا انکشاف کرنے پر ذرائع ابلاغ کے لیے پرائز
15 اپریل 2014ان اخباروں نے امریکی نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کے سابق ملازم ایڈروڈ سنوڈن کی جانب سے فراہم کردہ خفیہ دستاویزات کی بنیاد پر متعدد رپورٹیں شائع کی تھیں۔ ان کے نتیجے میں ایسے خفیہ پروگرام سامنے آئے جنہیں امریکی حکومت، عوام اور عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کے لیے استعمال کر رہی تھی۔
بوسٹن میراتھن دھماکوں اور اس کے بعد حملہ آوروں کی گرفتاری کی رپورٹنگ پر پُلٹزر فار بریکنگ نیوز کا ایوارڈ بوسٹن گلوب کو دیا گیا ہے۔
جاسوسی کے پروگراموں کی رپورٹنگ پر امریکا کے اخباروں نیو یارک ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ کو دو دو پُلٹزر پرائز ملے ہیں۔ این ایس اے کے خفیہ پروگرام سے متعلق ’دا گارڈیئن‘ کے لیے رپورٹیں لکھنے والوں میں سے ایک لارا پوئٹراس کا کہنا ہے: ’’میرے خیال میں یہ زبردست خبر ہے۔ یہ سنوڈن کے حوصلے کا عہد، اس کے حوصلے اور اس کی اس خواہش کی تائید ہے جس کے تحت وہ عوام کو اس بات سے مطلع کرنا چاہتا تھا کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق فریڈم آف دی پریس فاؤنڈیشن کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق سنوڈن نے ذرائع ابلاغ کو این ایس اے کے پروگرام کو سامنے لانے پر دیے گئے ایوارڈز کو ہر اس شخص کے لیے حوصلہ افزا قرار دیا ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ عوام کا حکومت میں حصہ ہے۔
ایڈورڈ سنوڈن جاسوسی کے پروگرام پرزم کا انکشاف کرنے پر امریکا کو مطلوب ہیں۔ اس پروگرام کے بارے میں معلومات ذرائع ابلاغ کو دینے کے بعد وہ ہانگ کانگ فرار ہو گئے تھے۔ وہاں سے وہ گزشتہ برس جون میں ماسکو پہنچے تاہم امریکا کی جانب سے شہریت کی منسوخی کی وجہ سے مزید سفر نہ کر سکے اور ماسکو ایئر پورٹ کے ٹرانزٹ زون میں ہی ٹھہرے رہے۔ اگست میں روس نے انہیں ایک سال کے لیے سیاسی پناہ دے دی تھی۔
ایڈورڈ سنوڈن نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ این ایس اے یورپی رہنماؤں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ یہ معلومات سامنے آنے پر یورپی ملکوں میں امریکا کے خلاف سخت ردِ عمل دیکھنے میں آیا تھا۔
گزشتہ برس اکتوبر میں جرمنی کے اخبار بِلڈ اور میگزین ڈیئر اشپیگل نے سنوڈن کی جانب سے عام کی گئی خفیہ دستاویزات کےحوالے سے یہ رپورٹ دی تھی کہ این ایس اے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موبائل فون کی نگرانی کرتی رہی ہے۔