ترکی کا ایران کے ساتھ تجارت دوگنا کرنے کا عزم
30 جنوری 2014ترک وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن منگل کے دن ایران پہنچے تھے۔ ایردوآن نے ایرانی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے دوران دو طرفہ باہمی تجارت کو فروغ دینے کے علاوہ شامی تنازعہ پر بھی گفتگو کرنا تھی۔ شام کے تنازعے کے حل کے لیے ان ہمسایہ ممالک میں ایک کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ یاد رہے کہ ایرانی قیادت شامی صدر بشار الاسد کی حامی ہے جبکہ ایردوآن کھلے عام شامی اپوزیشن کی حمایت کرتے ہیں۔
ایردوآن کے اس دورے کو انقرہ اور تہران کے مابین نئے مراسم کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ تہران میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے تر ک وزیر اعظم نے کہا، ’’سال 2012 تجارت کے اعتبار سے غیر معمولی رہا۔ اس دوران ترکی اور ایران کے مابین مجموعی تجارت کا حجم 21.8 بلین ڈالر رہا۔ بدقسمتی سے 2013ء میں یہ کم ہوا اور 13.5 ملین ڈالر تک آ گیا لیکن دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ 2015ء تک اس تجارتی حجم کو 30 بلین ڈالر تک لے جایا جائے۔‘‘
ترکی توانائی کے شعبے میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے روایتی طور پر ایران اور روس پر انحصار کرتا ہے۔ تاہم اب رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ایران سے درآمدات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس دورے کے دوران ترک وزیر اعظم نے تین اہم تجارتی معاہدوں پر دستخط بھی کیے۔
یہ امر اہم ہے کہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے یورپی یونین اور امریکا کی طرف سے ایران پر تیل اور گیس کی برآمدات کے حوالے سے پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔ تاہم اب عالمی طاقتوں اور تہران حکومت کے مابین ایک ابتدائی سمجھوتے کے بعد ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس کے بدلے میں ایران پر عائد کچھ تجارتی پابندیاں ہٹا لی گئی ہیں۔
ایران میں قیام کے دوران ایردوآن نے صدر حسن روحانی کے علاوہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کی۔ تاہم ان ملاقاتوں کی تفصیلات میڈیا پر جاری نہیں کی گئی ہیں۔ ایرانی میڈیا کے مطابق خامنہ ای نے ایرادوآن سے ملاقات کے بعد کہا، ’’دونوں ممالک کے مابین دوستی اور برادرانہ تعلقات کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔‘‘ سپریم لیڈر نے زور دیا ہے کہ مستقبل میں ہمسایہ ممالک کو اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانا چاہیے۔
ایران روانہ ہونے سے قبل ایردوآن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تہران حکومت کے ساتھ شامی تنازعہ کے حل پر بھی بات چیت کریں گے لیکن اس دورے کے دوران اطراف نے اس بارے میں کوئی بیان عوامی سطح پر جاری نہیں کیا ہے۔