ترکی میں غصہ، احتجاج اور غم
منہدم کوئلے کی کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کے زندہ بچ جانے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے جبکہ ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
اس حادثے پر ترک حکومت نے سہہ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ اس موقع پر انتہائی جذباتی اور رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
ترک وزیر توانائی تانر یلدز کا کہنا کہ وقت ان کے حق میں نہیں جا رہا اور ابھی تک 196 لاشیں ان کے لوحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔
وزیر اعظم ایردوآن نے کہا کہ کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن مقامی کان کن آپریٹرز کے مطابق 120 مزدور ابھی بھی کان میں پھنسے ہوئے ہیں۔
منہدم کوئلے کی کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کے زندہ بچ جانے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ حادثے کے وقت کوئلے کی کان میں تقریباﹰ 787 کارکن موجود تھے۔
بدھ کو رات گئے بتایا گیا کہ تقریباﹰ 450 مزدوروں کو کان سے باہر نکال لیا گیا ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق فی الحال ان اعداد و شمار کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے کا صوبہ مانیسا کے شہر صوما میں متاثرہ کان کے دورے کے بعد کہنا تھا، ’’ ہمیں اپنی حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کا سامنا ہے۔‘‘ اس علاقے میں موجود متاثرین کے غمزدہ رشتہ داروں نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔
صوما کے علاقے کو لگنائٹ کوئلے کی کان کنی کے لیے ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہ استنبول سے تقریبا 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔
اس سے قبل ترکی کی کان کنی کی صنعت میں بدترین حادثہ 1992ء میں پیش آیا تھا۔ اس وقت 263 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ دریں اثناء ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین اور امریکا نے ترکی کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے مدد کی پیش کش کی ہے۔
انقرہ اور استنبول میں ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ مظاہرین نے حکومت اور کان کنی کی صنعت پر غفلت برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔
انقرہ میں تین سے چار ہزار افراد نے حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کی۔ پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا۔
اسی طرح استنبول میں بھی ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرہ کیا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس سے پہلے اُن آٹھ سو اسٹوڈنٹس کے خلاف بھی آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، جنہوں نے وزارت توانائی کی طرف مارچ کیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومتی سطح پر غفلت برتنے کے الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو ایردوآن حکومت کو انتہائی سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔