ترکی شامی جنگجوؤں کو تربیت دینے پر راضی
11 اکتوبر 2014امریکی محکمہء خارجہ کے مطابق ترکی شام میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی روکنے کے لیے اس سے لڑنے والے شامی جنگجوؤں کو تربیت بھی دے گا اور انہیں ہتھیار بھی مہیا کیے جائیں گے۔ امریکا ترکی پر زور ڈالا رہا ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد کا حصہ بنے اور اس شدت پسند تنظیم کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں شروع کرے۔
ایک ایسے موقع پر جب ترک سرحد کے قریب واقعے کرد علاقے کوبانی پر اسلامک اسٹیٹ کے حملے کے بعد کرد جنگجوؤں شہر کے دفاع کی جنگ میں مصروف ہیں، ترکی کی جانب سے اعتدال پسند شامی جنگجوؤں کو تربیت فراہم کرنے پر رضامندی سامنے آئے ہے۔ تاہم خبر رساں اداروں کے مطابق کرد فائٹرز کے لیے ہتھیاروں کی یہ ترسیل خاصی تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔
گزشتہ روز امریکی وزارت خارجہ کی ترجمان ماری ہارف نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’’ترکی شام کی اعتدال پسند اپوزیشن کو تربیت اور ہتھیار دینے پر آمادہ ہو گیا ہے۔‘‘
اس سلسلے میں امریکی اور ترک حکام کے درمیان جمعرات کے روز انقرہ میں ملاقات ہوئی، جس میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ میں ترکی کے ممکنہ کردار پر بات چیت کی گئی۔
ہارف نے مزید بتایا ہے کہ اس سلسلے میں امریکی وزارت دفاع کی ایک منصوبہ ساز ٹیم اگلے ہفتے انقرہ جائے گی، جس میں فوجی حوالے سے مزید تفصیلات طے کی جائیں گی۔
اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند اب تک کرد شہر کوبانے کے تقریباﹰ چالیس فیصد حصے پر قابض ہو چکے ہیں۔
اس سے قبل وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کی مشیر لیزا موناکو اسلامک اسٹیٹ کو شکست دینے کے حوالے سے ترکی کے کردار کی اہمیت پر زور دے چکی ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں ترک خفیہ ادارے کے سربراہ ہاکن فیدان سے جمعے کے روز ملاقات بھی کی۔ تاہم انقرہ حکومت شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کی منصوبہ بندی تک اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کسی عسکری کارروائی کا حصہ بننے سے انکاری رہی ہے۔
اس سلسلے میں ترک حکومت نے شمالی شام میں ایک نو فلائی زون کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، تاکہ شامی مہاجرین کو محفوظ مقام مہیا ہو اور اعتدال پسند باغیوں کو تربیت مہیا کی جا سکے۔ تاہم امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ابھی اس کا شمالی شام میں نوفلائی زون کے قیام کا کوئی ارادہ نہیں، کیوں کہ اس سے شامی تنازعے میں امریکی مداخلت صدر اوباما کی جانب سے مقرر کردہ حد سے بڑھ سکتی ہے۔ امریکی صدر اوباما کا اصرار رہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں امریکی عسکری کردار کو صرف اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جنگ تک محدود رکھنا چاہتے ہیں۔