ترکی: شادی کی تقریب ماتم کدے میں تبدیل، بم حملے میں 50 ہلاک
21 اگست 2016یہ تقریب شامی سرحد کے قریب ترک صوبے غازی انتیپ کے اسی نام کے شہر میں کھلے آسمان تلے منعقد ہو رہی تھی۔ یہ شہر ترکی اور شام کی سرحد سے تقریباً ساٹھ کلومیٹر شمال کی جانب واقع ہے۔ صوبائی گورنر علی یرلی قایا کے مطابق یہ ایک دہشت گردانہ حملہ تھا۔ کھلے آسمان تلے منعقد ہونے والی اس تقریب کو غالباً ایک خود کُش بمبار نے نشانہ بنایا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر اس حملے کے پیچھے شدت پسند ملیشیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا ہاتھ ہے۔ اپنے ایک بیان میں ایردآون نے کہا کہ امریکا میں موجود مبلغ فتح اللہ گولن، جو بقول اُن کے پندرہ جولائی کی ناکام بغاوت کے ذمہ دار ہیں اور داعش کے درمیان، جو ممکنہ طور پر غازی انتیپ کے حملے کی ذمہ دار ہے ’کوئی فرق نہیں ہے‘۔ اس بیان میں ایردوآن نے کہا: ’’ہمارے ملک اور ہماری قوم کا ان حملے کرنے والوں کے لیے ایک ہی پیغام ہے اور وہ یہ کہ تم کامیاب نہیں ہو گے۔‘‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ تقریب غازی انتیپ نامی شہر کے شاہین بے نامی علاقے میں منعقد ہو رہی تھی، جہاں کُردوں کی اکثریت ہے۔ اسی بناء پر شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس حملے کے پیچھے ’جہادی عناصر‘ کارفرما ہو سکتے ہیں۔ بہت سے ’جہادی‘ کُردوں کو اپنا سب سے بڑا حریف مانتے ہیں کیونکہ شامی سرزمین پر شدت پسند ملیشیا آئی ایس کے خلاف جنگ میں کُرد جنگجو انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
شادی کی اس تقریب میں بھی بچوں اور خواتین سمیت کُردوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ کُردوں کی حامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (HDP) نے بتایا ہے کہ اس تقریب میں اُس کے اپنے بھی کئی ارکان شریک تھے۔
یہ حملہ اُسی روز ہوا ہے، جس روز ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے شام کی جنگ میں آئندہ زیادہ سرگرم کردار ادا کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس حملے پر اپنے رد عمل میں بن علی یلدرم نے کہا کہ غازی انتیپ اس حملے کے بعد بھی اُسی جذبے کا مظاہرہ کرے گا، جس کا مظاہرہ اُس نے 1921ء میں کیا تھا، جب اس شہر نے آزادی کی جنگ میں فرانسیسی افواج کو شکست دی تھی اور جس فتح کی بدولت اس شہر کے نام کے ساتھ ’غازی‘ کے لفظ کا اضافہ ہو گیا تھا: ’’ہمارا صدمہ بہت بڑا ہے لیکن اپنے اتحاد اور اتفاق سے ہم اس طرح کے بزدلانہ حملوں کو ناکام بنا دیں گے۔‘‘