ترک فوج کے ڈیڑھ سو جنرل برخاست، سو نشریاتی ادارے بھی بند
28 جولائی 2016انقرہ سے جمعرات اٹھائیس جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پندرہ جولائی کو ترک فوج کے قریب نو ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک دھڑے نے اقتدار پر قبضے کی جو کوشش کی تھی، وہ تقریباﹰ تین سو افراد کی ہلاکت کا سبب بنی تھی۔
اس ناکام بغاوت کے بعد انقرہ حکومت نے مکی فوج، عدلیہ، تعلیمی شعبے اور میڈیا میں وسیع تر کارروائیوں کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اس دوران ہزار ہا افراد کو ان کی سرکاری ملازمتوں سے برطرف کیا جا چکا ہے جب کہ قریب سولہ ہزار افراد بغاوت کی کوشش یا باغیوں کی حمایت کے الزام میں ابھی تک زیر حراست ہیں۔
ان اقدامات پر ترک اپوزیشن اور مغربی دنیا کی طرف سے تنقید بھی کی جا رہی ہے، جو ان بے تحاشا گرفتاریوں اور برطرفیوں کو ’تطہیری عمل‘ قرار دیتے ہیں۔
ترکی کے سرکاری گزٹ میں آج جمعرات کو شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اس ناکام فوجی بغاوت کے جرم میں صرف فوج اور بحریہ میں جنرل اور ایڈمرل کے عہدے کے جن اعلیٰ افسروں کو ان کی ملازمتوں سے برخاست کیا گیا ہے، ان کی مجموعی تعداد 149 بنتی ہے۔
ترک حکومت کی طرف سے اس بغاوت کی کوشش کا الزام امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے بہت بااثر ترک مسلم مبلغ فتح اللہ گولن پر لگایا جاتا ہے اور انقرہ نے واشنگٹن حکومت سے یہ مطالبہ بھی کر رکھا ہے کہ امریکا گولن کو ملک بدر کر کے ترکی کے حوالے کرے۔
ترک سرکاری گزٹ کے مطابق ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک 87 ملٹری جنرل، 30 ایئر فورس جنرل اور بحریہ کے 32 ایڈمرل ملازمتوں سے برطرف کیے جا چکے ہیں۔ مجموعی طور پر ترک مسلح افواج کے ان انتہائی اعلیٰ افسروں کی تعداد 149 بنتی ہے۔ وہ 1100 فوجی افسر، 436 جونیئر افسر اور ہزاروں فوجی اس تعداد کے علاوہ ہیں، جنہیں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران آرمڈ فورسز سے نکالا گیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کی ترک شاخ کے مطابق انقرہ حکومت اب تک ملکی ذرائع ابلاغ کے خلاف بھی بہت سے اقدامات کر چکی ہے، خاص طور پر ان میڈیا اداروں کے خلاف جو صدر رجب طیب ایردوآن اور ان کی جماعت کے بارے میں ناقدانہ سوچ رکھتے ہیں۔
ٹرکش گزٹ کے مطابق اب تک ملک میں تین خبر رساں اداروں، 16 ٹیلی وژن اسٹیشنوں، 23 ریڈیو اسٹیشنوں، 45 اخبارات اور 15 جریدوں کی بندش کے حکومتی احکامات جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ 29 اشاعتی اداروں کی بندش کا حکم بھی دیا جا چکا ہے۔
یہی نہیں ترکی میں اس ہفتے کے اوائل میں 42 صحافیوں کی گرفتاری کے لیے وارنٹ بھی جاری کر دیے گئے تھے جب کہ کل بدھ ستائیس جولائی کے روز ماضی میں فتح اللہ گولن کے حامی اخبار ’زمان‘ کے، جسے اب سرکاری انتطام میں لیا جا چکا ہے، 47 سابق صحافیوں کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے گئے تھے۔
اسی دوران ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولو نے آج بتایا کہ فوج اور سرکاری محکموں میں ’تشکیل نو‘ کے اسی عمل کے دوران ترک وزارت خارجہ کے 88 اہلکار بھی برطرف کر دیے گئے ہیں۔