ترک افواج شمالی عراق میں داخل، 14 ترک پولیس اہلکار بھی ہلاک
8 ستمبر 2015کالعدم کردستان ورکرز پارٹی ( پی کے کے) کے ایک بم حملے میں چودہ ترک پولیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق ان پولیس اہلکاروں کو صوبہ اغدیر میں اس وقت نشانہ بنایا گیا، جب یہ ہمسایہ ملک آذربائیجان کی سرحد کے قریب واقع اپنی چوکی کی طرف جا رہے تھے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب دو روز پہلے ہی سٹرک کنارے نصب دو بموں کے نتیجے میں کم از کم سولہ ترک فوجی مارے گئے تھے۔ حالیہ کچھ عرصے میں کرد عسکریت پسندوں کی طرف سے ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں ترک فوجیوں پر ہونے والا یہ بدترین حملہ تھا۔ ترک حکام کے مطابق بارہ پولیس اہلکار منگل کے روز ہلاک ہوئے تھے جبکہ دو ہسپتال میں اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ بتایا گیا ہے کہ مزید دو پولیس اہلکار اغدیر ہسپتال میں داخل ہیں اور ان کا اعلاج جاری ہے۔
دوسری جانب شمالی عراق میں موجود کردستان ورکرز پارٹی کے ایک ترجمان نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے اس حملے کی تصدیق کر دی ہے۔ ان حملوں کے بعد ترک وزیراعظم احمد داؤد اولو نے ترکی کے مشرقی پہاڑی علاقوں سے ’پی کے کے‘ کا ’صفایا کرنے‘ کا کہا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق پی کے کے اکثر اوقات دوسری جانب ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے اور اتوار کے روز بھی اس تنظیم نے ہلاک ہونے والے ترک فوجیوں کی تعداد اکتیس بتائی تھی۔
دوسری جانب ترکی نے عسکریت پسندوں کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے کرد باغیوں کے مضبوط گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں پر فضائی بمباری کی ہے۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ترکی نے شمالی عراق میں موجود کرد باغیوں پر بمباری کے علاوہ زمینی فوج سے حملے کی خاطر عراقی سرزمین میں پیش قدمی بھی کی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ترک فوج کی طرف سے عراق میں کردستان ورکرز پارٹی کے بیس ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق کرد ترکی کی مجموعی آبادی کا بیس فیصد بنتے ہیں۔ عراق، ایران اور شام بھر میں بکھرے ہوئے کردوں کی کل آبادی پچیس سے پینتیس ملین کے قریب ہے۔ علیحدگی پسند کرد باغیوں نے 1984ء سے ترک حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ ان کی مسلح بغاوت اور ترک سکیورٹی فورسز کے ساتھ لڑائی میں اب تک پینتالیس ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔