بیرلسکونی سیاسی محرکات کا نشانہ؟
10 اگست 2013میڈیا ٹائیکون اور ملک کے امیر ترین اشخاص میں شمار کیے جانے والے سلویو بیرلسکونی خود کو بے قصور قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے ملکی عدلیہ کو شدید تنقید کا نشانے بناتے ہوئے کہا ہے کہ جج بھی سیاسی آلہ کار کے طور پر استعمال کیے گئے تاکہ سیاسی طور پر انہیں نقصان پہنچایا جا سکے۔
1994ء میں سیاست میں قدم رکھنے والے 76 سالہ بیرلسکونی چار مرتبہ وزارت عظمیٰ کے لیے منتخب کیے جا چکے ہیں۔ گزشتہ ہفتے جب سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کے اس حکم نامے کو درست قرار دیا، جس کے تحت بیرلسکونی کو سزا سنائی گئی تھی تو تب سے ہی بیرلسکونی نے کھل کر ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بھی اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ بیرلسکونی پر ماضی میں درجنوں مقدمات چل چکے ہیں لیکن ان پرعائد ایک بھی الزام درست ثابت نہیں ہو سکا تھا۔
لبرل کنزرویٹو پارٹی ’دی پیپل آف فریڈم ‘ کے رہنما بیرلسکونی بارہا اپنی بے گناہی کی قسمیں کھا چکے ہیں۔ ابھی گزشتہ اتوار کے دن ہی وہ اپنے حامیوں کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے رو دیے۔ پر نم آنکھوں سے روم میں جمع ہونے والے اپنے حامیوں سے انہوں نے کہا، ’’ ہم سب کو مل کر جمہوریت اور آزادی کے لیے جنگ لڑنی چاہیے۔ ہمیں اٹلی کو ایک ایسا ملک بنانا چاہیے، جہاں کسی کو یہ خطرہ نہ ہو کہ اسے بغیر کسی وجہ یا جرم کے جیل بھیج دیا جائے گا۔‘‘
دوسری طرف میلان شہر کے ایک سینئر جج فابیو رویَا نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بیرلسکونی پر عائد الزامات کو مختلف ججوں نے پرکھا ہے ، اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ان تمام ججوں کا تعلق بائیں بازو سے ہے۔ رویَا کے بقول بیرلسکونی کے نزدیک جج اس وقت تک ٹھیک ہیں، جب تک وہ ان کے خلاف کوئی قدم نہ اٹھائیں اور جب کوئی جج درست فیصلہ کرے تو وہ میڈیا پر اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے عوام کو اپنے ناپسندیدہ ججوں کے خلاف کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف وکیل صفائی مارکوس ویجٹ نے کہا ہے کہ شاید ان کے مؤکل کا سیاسی اور معاشرتی سطح پر انتہائی زیادہ نمایاں ہونا ہی انہیں نشانہ بنائے جانے کا سبب بنا ہے۔ بیرلسکونی نے 2008 میں خود بتایا تھا کہ پولیس نے انہیں 577 مرتبہ وزٹ کیا، ان کے خلاف ڈھائی ہزار عدالتی کارروائیاں ہوئیں اور اس کے لیے انہوں نے مجموعی طور پر اپنے وکلاء کو 174 ملین یورو کی فیس ادا کی۔
اطالوی عدلیہ کے نظام پر بیرلسکونی کی تنقید کو توجہ دی جائے یا نہیں لیکن وسیع پیمانے پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ وہاں کا عدالتی نظام پیچیدگیوں سے پُر ہے۔ وہاں فوجداری اور سول دونوں مقدمات میں ہی تعطل ایک معمول کی بات ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اٹلی میں اس وقت قریب نو ملین کیسز التواء کا شکار ہیں۔ وہاں کسی بھی فوجداری مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے کا اوسط دورانیہ پانچ برس اور سول کا سات برس ہے۔
اس صورتحال میں کچھ وکلاء کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعظم بیرلسکونی نے بھی عدلیہ کے نظام میں خرابیاں پیدا کرنے کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا ہے، جس کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ خود قانون سے محفوظ رہ سکیں۔ بیرلسکونی کے دور اقتدار میں ایسی متعد قانون سازیاں کی گئی تھیں، جن کے تحت ججوں کو وسیع پیمانے پر آزادانہ حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ ناقدین کے بقول اب یہ جج اپنے اس آئینی حق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتے ہیں کیونکہ دوسری صورت میں انہیں سیاسی طاقتوں کے تابع ہونا پڑ سکتا ہے۔
اٹلی میں جج خود کو جمہوریت کا نگہبان قرار دیتے ہیں۔ ناقدین کے بقول یہ کچھ حد تک درست بھی ہے لیکن عدلیہ کو حاصل طاقت میں ایک اعتدال ضروری ہے۔