بھارت میں مودی کی ’کلین انڈیا‘ مہم کا آغاز
2 اکتوبر 2014اس موقع پر مودی نے ملکی عوام پر صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کی بہتر صورت حال کی اہمیت واضح کرتے ہوئے ایک دلت بستی میں علامتی طور پر جھاڑو بھی دیا اور اپیل کی کہ ان کی اس مہم کو سیاسی تناظر میں نہ دیکھا جائے۔
وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد نریندر مودی نے اپنے پسندیدہ جن بڑے منصوبوں کا اعلان کیا تھا، ’کلین انڈیا مشن‘ یا ’سوچھ بھارت ابھیان‘ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ انہوں نے آج اس مہم کا باضابطہ آغاز کرنے سے قبل نئی دہلی میں مزدوروں کی ایک بستی میں اس مندر کا دورہ بھی کیا، جہاں عشروں قبل مہاتما گاندھی نے لوگوں سے صفائی ستھرائی کی اپیل کی تھی۔
بعد ازاں وزیر اعظم نے تاریخی انڈیا گیٹ کے سبزہ زار پر منعقدہ ایک بڑی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے ہموطنوں کو صفائی کی اہمیت اورگندگی سے پیدا ہونے والے نقصانات سے آگاہ کیا اور کہا کہ صفائی ہر شخص کی سماجی ذمہ داری ہے، ’’ہم جہاں بھی رہیں، اسے صاف رکھیں۔ یہ کام صرف حکومت کا نہیں ہے۔‘‘
کئی سماجی ماہرین کے مطابق صفائی کے معاملے میں بھارت خاصا بدنام ہے۔ بین الاقوامی تنظیم ’ہائجین کونسل‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں 53 فیصد یعنی 60 کروڑ سے بھی زیادہ باشندے کھلے میدانوں میں رفع حاجت کرتے ہیں جب کہ برازیل اور بنگلہ دیش میں ایسے لوگوں کا تناسب صرف سات فیصد اور چین میں محض چار فیصد بنتا ہے۔
گندگی کے سبب دنیا میں ہر سال ٹی بی کا شکار ہونے والے 90 لاکھ مریضوں میں بھارتی باشندوں کی تعداد 19لاکھ بنتی ہے، 15 لاکھ افراد ملیریا کا شکار ہو جاتے ہیں، 30 کروڑ سے زائد انسیفیلائٹس کے خطرے سے دوچار ہیں اور ہر سال تین لاکھ نومولود بھارتی بچے اسہال کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔
بھارتی پارلیمان نے گرچہ 2013ء میں سر پر انسانی فضلہ ڈھونے پر پابندی عائد کر دی تھی لیکن یہ سماجی برائی ابھی تک موجود ہے اور بھارت میں تین لاکھ سے زائد افراد اب بھی یہ ’غیر انسانی کام‘ کرنے پر مجبور ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے آج اپنی تقریر میں عالمی ادارہ صحت WHO کی اس رپورٹ کا حوالہ بھی دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ گندگی کی وجہ سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان کے باعث بھارت میں ہر غریب شہری کو سالانہ ساڑھے چھ ہزار روپے اضافی طور پر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ نریندر مودی کا کہنا تھا کہ اگر لوگ صفائی کے حوالے سے بیدار ہو جائیں تو غریبوں پر یہ اضافی مالی بوجھ کم کیا جا سکتا ہے۔
دہلی اسکول آف اکنامکس کے مطابق بہار، ہریانہ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اتر پردیش کے 300 سے زائد دیہات کے 3200 گھرانوں میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 47 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ کھلے میدان میں رفع حاجت کرنا انہیں زیادہ ’خوشگوار اور آرام دہ‘ محسوس ہوتا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نے تسلیم کیا کہ صفائی ستھرائی کے لیے لوگوں کی ذہنیت کو بدلنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام آسان نہیں لیکن یہ ناممکن بھی نہیں ہے اور بھارت اسے کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اگر مریخ پر جا سکتا ہے تو اس ملک کو صاف ستھرا کیوں نہیں رکھا جا سکتا؟
مودی نے کہا کہ یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ ہماری خواتین کو رفع حاجت کے لیے کھلے میدانوں میں جانا پڑتا ہے اور آج بھی ایسے اسکول بہت بڑی تعداد میں ہیں جہاں لڑکیوں کے لیے علیحدہ ٹائلٹ دستیاب نہیں ہیں۔
حکومت نے ’کلین انڈیا مشن‘ کے تحت 2019ء تک ملک کے تمام گھروں میں ٹائلٹس کی موجودگی کا ہدف مقرر کیا ہے۔ حکومت اس پر 1.96 لاکھ کروڑ روپے خرچ کرے گی۔ ان میں سے 1.34 لاکھ کروڑ روپے انفرادی ٹائلٹس اور 62 ہزار کروڑ روپے کمیونٹی ٹائلٹس کی تعمیر پر خرچ کیے جائیں گے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے بھی وزیر اعظم مودی کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ بھی صفائی کی اس مہم میں ان کا ساتھ دیں گے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی تسلیم کیا کہ یہ اسکیم ان کی ذاتی اختراع نہیں ہے بلکہ سابقہ حکومتوں نے بھی صفائی ستھرائی کے لیے خاصا کام کیا ہے۔ کانگریس پارٹی کی قیادت والی گزشتہ UPA حکومت نے بھی ’نرمل بھارت‘ کے نام سے اسی طرح کا ایک پروگرام شروع کیا تھا لیکن وہ افسر شاہی کی نذر ہو گیا تھا۔
وزیر اعظم مودی کا یہ منصوبہ کتنا کامیاب ثابت ہوتا ہے، یہ تو آئندہ برسوں میں ہی واضح ہو سکے گا تاہم ’کلین انڈیا مشن‘ کے آغاز پر انہوں نے بھارتی عوام کو یقین دلایا کہ وہ نہ تو گندگی پھیلائیں گے گے اور نہ ہی کسی کو گندگی پھیلانے دیں گے۔