بچوں کے رسائل، کل اور آج
9 اگست 2021میرے بچپن کی کچھ اچھی یادوں میں سے ایک یاد بچوں کے رسائل کی ہے۔ میری امی ہر مہینے اخبار والے سے ہم بہنوں کے لیے تعلیم و تربیت، پھول، بچوں کا باغ اور بچوں کی دنیا لیا کرتی تھیں۔ جس دن رسالے آتے، اس دن ہماری عید ہو جاتی تھی۔ ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر رسالے پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے۔ نہ کھانے کا ہوش اور نہ کام کی فکر۔ بس ہم ہوتے تھے اور رسالے ہوتے تھے۔ امی کہتی تھیں کہ بس رات کو سوتے ہوئے پڑھا کرو، روز کی ایک کہانی۔ پر ہم کہاں اتنے صابر۔
ان رسالوں کی وجہ سے ہی ہم بہنوں کی اردو اپنے ہم جماعتوں سے کئی گنا بہتر تھی۔ وہ اردو کی کلاس میں سبق پڑھتے ہوئے اٹکا کرتے اور ہمارا یہ حال تھا کہ جس دن کورس کی کتابیں آتیں، اس کے اگلے روز اردو کی کتاب پوری پڑھ چکے ہوتے تھے۔
میرا پسندیدہ رسالہ تعلیم و تربیت تھا۔ یہ فیروز سنز کے زیرِ اہتمام 1940ء سے شائع ہو رہا ہے۔ مجھے اس کی ڈیزائننگ بہت اچھی لگتی تھی۔ میں سب سے پہلے یہی پڑھا کرتی تھی۔ میری بہن کو نوائے وقت کا پھول پسند تھا۔ مجھے وہ قدرے مشکل لگتا تھا۔ اس کی وجہ اس کی اردو نہیں بلکہ ڈیزائننگ تھی۔ ایسے لگتا تھا جیسے بہت سا مواد ایک ہی پیج پر موجود ہے۔ تاہم پڑھا پھر بھی کرتی تھی۔
پھول کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس کے پہلے صفحے پر ایک چھوٹا سا عہد نامہ ہوتا تھا۔
میرا نام ۔۔۔۔۔۔۔ ہے
اور یہ میرا پیارا پھول ہے
اسے پڑھنے سے مجھے خیال رہتا ہے کہ
نماز کی ادائیگی میں دیر نہ ہو رہی ہو۔
آج کا ہوم ورک مکمل ہو گیا ہو۔
ابو، امی نے جو کام کہے تھے وہ وہ گئے ہوں۔
میرا یہ حال تھا کہ جس دن رسالے آتے، اس دن سارے کام دھندے چھوڑ کر رسالے لے کر بیٹھ جانا ہے اور جب تک ہر رسالہ پڑھ نہ لیا جائے تب تک اٹھنا نہیں ہے حالانکہ اس کے پہلے ہی صفحے پر اتنا بھاری عہد نامہ موجود ہوتا تھا۔ مدیر بے شک ہماری چوری چیک نہیں کر سکتے تھے مگر رسالہ پڑھتے ہوئے گلٹ کا احساس دل میں ضرور رہتا تھا۔
بچوں کی دنیا اور بچوں کے باغ تقریباً ایک جیسے رسالے تھے۔ ایک سا سائز، ایک سا لے آؤٹ۔ آج دیکھا تو دونوں کے مختلف پبلشرز ہیں۔ تاہم، ان کی کہانیاں آج بھی وہی ہیں جو سالوں پہلے ہوا کرتی تھیں۔ ایک بادشاہ اور ایک ملکہ جو سالوں سے اللہ سے اولاد مانگ رہے ہیں۔ ایک دن اس ملک میں ایک فقیر آتا ہے۔ کسی نہ کسی طرح بادشاہ کا اس سے آمنا سامنا ہو جاتا ہے۔ فقیر بادشاہ کی نیکی سے متاثر ہو کر اسے اولاد حاصل کرنے کا نسخہ بتاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ایک مشکل بھی بتا دیتا ہے مثلاً اولاد ہوگی پر بیس سال بعد مر جائے گی۔ اسے زندہ رکھنے کے لیے جنگل میں بھیج دینا وغیرہ وغیرہ۔ ہم ایسی کہانیاں بھی پورے شوق سے پڑھا کرتے تھے پر آج کل کے بچے ہمارے جیسے معصوم نہیں ہیں۔
ہماری اور ہم سے پہلے کی نسلوں میں کتب بینی کا رجحان بھی ان ہی رسالوں کی بدولت پیدا ہوا۔ ایک کتاب کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر پڑھنے کا مزہ ہی اور تھا۔ آہستہ آہستہ کتاب کی جگہ موبائل فون اور کِنڈل نے لے لی۔ جو کتاب کے رسیا ہیں وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں کتاب ضرور پڑھتے ہیں۔
ان رسائل کے بارے میں چند دن پہلے ٹویٹ کی تو وہ فوراً وائرل ہو گئی۔ بہت سے لوگوں نے کہا کہ میں نے انہیں اپنی ٹویٹ سے بچپن یاد دلا دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے میری فہرست میں مزید رسائل کا بھی اضافہ کیا جیسے کہ ہمدرد نونہال، آنکھ مچولی، اطفال اور ساتھی وغیرہ۔ کچھ لوگوں نے میری ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ وہ اب تک ان رسائل کو پڑھ رہے ہیں۔ کچھ بیرونِ ملک رہنے والے افراد نے بتایا کہ ان کے نانا یا دادا انہیں پاکستان سے ہر مہینے رسائل بھیجتے تھے۔ صحافی فیضان لکھانی اور جویرہ صدیقی نے بتایا کہ وہ ان رسائل میں لکھا بھی کرتے تھے۔
بچوں کے ان رسائل نے ہماری کئی نسلوں کو اردو پڑھنا اور لکھنا سکھایا ہے۔ ان کا یہ مشن آج بھی جاری و ساری ہے۔ پہلے یہ پرنٹ فارم میں آتے تھے۔ اب یہ ای میگزین کی صورت میں بھی شائع ہوتے ہیں۔ آپ چاہے دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتے ہوں ایک کلک پر ان رسائل کو پڑھ سکتے ہیں۔ تاہم، ان کے معیار کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
میری بڑی بہن جو اب ایک امی جان بن چکی ہیں، ایک ماہ سے اپنے اڑھائی سالہ بیٹے کو بچوں کی دنیا اور بچوں کا باغ سے بادشاہ اور ملکہ کی کہانیاں پڑھ کر سنا رہی ہیں۔ اس نے چار کہانیاں سننے کے بعد پوچھا کہ ان بادشاہوں کے بچے کیوں نہیں ہوتے تھے۔ جو پلاٹ ہم سالوں نہیں پکڑ سکے اس اڑھائی سال کے بچے نے چار کہانیاں سننے کے بعد ہی پکڑ لیا۔
اس نسل کے لیے کوئی نیا رسالہ تو جاری نہیں ہو رہا، تاہم،اگر انہی رسائل کا مواد بہتر ہو جائے تو یہ بھی ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ہمارے بچپن اور آج کے بچوں کے بچپن میں بہت فرق ہے۔ ان کا دور سائنس کا ہے۔ انہیں دیو مالائی کہانیوں کی جگہ ربوٹ کے قصے سننے میں دلچسپی ہے۔ ان رسائل کو چاہیے کہ اپنے مواد کو آج کے دور کے مطابق ڈھالیں تاکہ آج کے بچے بھی ان میں اتنی ہی دلچسپی لیں جتنی ہم لیا کرتے تھے۔