بو ژیلائی پر مقدمہ، چینی معیشت کا امتحان بھی
9 اگست 2013خبررساں ادارے روئٹرز نے چینی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چینی سیاست دان بو ژیلائی کے عروج سے زوال تک کی کہانی سے نہ صرف یہ کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی اندرونی چپقلش بیرونی دنیا کے سامنے کھل کر سامنے آئی ہے بلکہ بو ژیلائی کے مقدمے کا فیصلہ صدر شی کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ معاشی اصلاحات کو ملک میں تیزی سے نافذ نہ کر سکیں۔ بو ژیلائی کے اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد چین میں سیاسی اصلاحات تو ناممکن دکھائی دے رہی ہیں۔
مبصرین کے مطابق فیصلہ آنے کے بعد بھی کافی عرصے تک چینی سیاسی منظر تناؤ کا شکار رہے گا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ فیصلے کی نوعیت کیا ہو گی۔
کمیونسٹ پارٹی کے سینیئر عہدیداروں کو فکر ہے کہ بو ژیلائی کے اس مرکزی حلقے میں جہاں کٹر بائیں بازو کے رجحانات پائے جاتے ہیں، اور جو علاقہ معاشی طور پر چین کے پسماندہ علاقوں میں سے ایک ہے، بو ژیلائی کے لیے عمر قید یا موت کی سزا ان کے حامیوں کو مشتعل کر سکتی ہے۔
خطرہ یہ ہے کہ اپنے لیڈر کے خلاف فیصلے کے بعد بو ژیلائی کے حامی چین کی نئی حکومت کی جانب سے پیش کردہ معاشی اصلاحات اور ملک میں نج کاری کے عمل کو بریک لگوانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
کمیونسٹ پارٹی کے قریب سمجھے جانے والے ایک شخص نے روئٹرز کو نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پارٹی، حکومت اور فوج میں بو ژیلائی سے ہمدردی رکھنے والے کافی افراد موجود ہیں۔
تاہم یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ چین کے مشرقی صوبے شانڈونگ کے دارالحکومت جینان کی عدالت بو ژیلائی کے خلاف ہی فیصلہ دے گی۔ ان پر بد عنوانی، طاقت کے غلط استعمال اور رشوت لینے کے الزامات ہیں۔ یہ انیس سوچھہتر کے بعد چینی کموینسٹ پارٹی کے کسی عہدیدار کے خلاف اتنے سنگین الزامات ہیں۔
چین میں عدالتیں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے ماتحت ہی سمجھی جاتی ہیں لہٰذا بو ژیلائی کے حق میں فیصلہ آنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
چینی صدر کے لیے یہ مقدمہ بہر صورت ایک امتحانی نوعیت رکھتا ہے۔ اگر بو ژیلائی کے خلاف عدالت کا فیصلہ نسبتاً نرم رہا تو اس سے انہیں پارٹی کے ان حلقوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو دنیا کی اس دوسری بڑی معیشت میں اصلاحات کے حامی ہیں۔