بنگلہ دیش: المناک واقعے کا ایک سال
24 اپریل 2014آج ایک سال بعد ہزاروں افراد جائے حادثہ پر جمع ہوئے اور اُنہوں نے اس حادثے میں مرنے والوں کی یاد تازہ کی۔
بنگلہ دیش کے منہدم رانا پلازہ کی تصاویر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی تھیں اور ان تصاویر کے نتیجے میں پہلی مرتبہ عالمی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بدصورت چہرہ بھی دنیا کے سامنے آیا تھا۔
یہ بات افسوس ناک بھی ہے لیکن سچی بھی ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالتِ زار کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایک ایسے سانحے کی ضرورت پڑی، جس میں گیارہ سو سے زائد افراد کو جان سے جانا پڑا جبکہ سولہ سو افراد زخمی ہو گئے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ آیا ان تصاویر پر ہونے والا شدید ردعمل محض وقتی تھا یا آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے درحقیقت کوئی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں؟
بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں عمارات اور آگ سے تحفظ کے معیارات طے کرنے کے حوالے سے مذاکرات تو گزشتہ کئی برسوں سے ہوتے چلے آ رہے تھے لیکن کہیں رانا پلازہ کے منہدم ہو جانے کے چند ہفتے بعد جا کر ایک باقاعدہ معاہدے کی منظوری عمل میں آئی۔ بین الاقوامی سطح پر ملبوسات تیار کرنے والی بہت سی کمپنیاں، جن میں بہت سی جرمن فرمیں بھی شامل ہیں، اس معاہدے میں شامل ہو گئیں۔ اس طرح وہ ملبوسات تیار کر کے دینے والوں کے ہاں کام کے حالات کی ذمہ داری میں بھی شریک ہو گئیں۔
جرمنی میں ’صاف ملبوسات کی تحریک‘ سے وابستہ فراؤکے بانزے کہتی ہیں:’’رانا پلازہ کے حادثے کے بعد ہم نے طاقتور رائے عامہ کو استعمال کیا اور بالآخر عمارات کے تحفظ اور آگ سے بچاؤ کے معیارات کے حوالے سے ایک ٹھوس اور شفاف سمجھوتہ طے کروانے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘ یہ جرمن تحریک بین الیورپی تحریک ’کلین کلودز کیمپین‘ کا ایک حصہ ہے۔
نومبر میں رانا پلازہ کے متاثرین کے لیے زرِ تلافی کا بین الاقوامی فنڈ بھی رائے عامہ کے شدید دباؤ ہی کے نتیجے میں قائم ہو پایا۔ اس فنڈ میں اُن ٹیکسٹائل کمپنیوں کو حصہ ڈالنا ہے، جو اس فیکٹری سے کپڑے تیار کرواتی تھیں۔ مطلوبہ چالیس ملین ڈالر میں سے اب تک صرف تقریباً پندرہ ملین ڈالر جمع ہو پائے ہیں۔ اس فنڈ کے سلسلے میں مذاکرات بین الاقوامی ادارہء محنت ILO کی نگرانی میں ہوئے، جو اب بین الاقوامی تعاون کی جرمن انجمن GIZ کے ساتھ مل کر اس فنڈ کا انتظام چلا رہا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں ILO کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ژِلبیئر ہونگبو نے کہا:’’آئی ایل او میں ہمارے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی ہم اس میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس طرح کی تحریکوں کے ساتھ تعاون کریں۔ تاہم مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس طرح کی تحریکیں، بہت سی این جی اوز اور میڈیا متعلقہ کمپنیوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں۔‘‘
جرمن رائے عامہ میں اس مسئلے کے حوالے سے شعور بیدار کرنے میں میڈیا اور این جی اوز کے بھرپور کردار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے صارفین سے متعلقہ پالیسیوں کے انسٹیٹیوٹ Conpolicy کے انچارج کرسٹیان تھورُون کہتے ہیں:’’پانچ سال پہلے تک بنگلہ دیش میں مزدوروں کے حقوق کا موضوع یہاں محض ایک ضمنی سا موضوع ہوا کرتا تھا۔ بہرحال اب ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ اس طرح کی سماجی تحریکیں منڈیوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘
وفاقی جرمن وزیر برائے ترقیاتی امور گیرڈ مُلر نے تیس اپریل کو ایک گول میز کانفرنس بلا رکھی ہے، جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کم از کم سماجی اور ماحولیاتی معیارات پر تبادلہء خیال کیا جائے گا۔ اس میں جرمن ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ این جی اوز کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں ایک ایسی ویب سائٹ وجود میں آ سکتی ہے، جہاں صارفین آسانی سے یہ جان سکیں گے کہ آیا کسی مخصوص لباس کی تیاری میں کم از کم معیارات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی ضمانت دینے والی مہر کا بھی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ آیا کسی لباس کی تیاری کے لیے معقول اجرت ادا کی گئی ہے اور تیاری کے عمل میں ماحولیاتی معیارات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔
دوسری طرف این جی اوز اس طرح کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے باقاعدہ ایسی قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس کے ذریعے امیر صنعتی ملکوں کی آرڈر دینے والی کمپنیوں کو بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ملکوں میں کام کے حالات کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہو۔