بنگلہ ديش: اپوزيشن مظاہرین اور پولیس میں تصادم
29 دسمبر 2013نيوز ايجنسی اے ايف پی کی ڈھاکا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق مقامی پوليس نے ممکنہ پرتشدد واقعات و فسادات سے بچنے کے ليے آج کی ریلی پر پہلے ہی پابندی لگا رکھی تھی۔ دوسری جانب متحدہ اپوزيشن پانچ جنوری کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو ملتوی کرانے کے ليے احتجاجی ریلی نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اپوزيشن کی جانب سے اِس ریلی میں لاکھوں افراد کے شریک ہونے کی توقع ظاہر کی جا رہی ہے۔ بعض اپوزیشن حلقے ریلی میں شرکاء کی تعداد کا اندازہ ايک ملين سے زائد لگا رہے ہیں۔ ایسی اطلاع بھی ہے کہ اپوزيشن جماعت بنگلہ ديش نيشنلسٹ پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم خالدہ ضياء اس ريلی سے خطاب کريں گی۔ تاہم ابھی تک يہ واضح نہيں ہے کہ پولیس اُن کو ریلی کے مقام تک پہنچنے دیں گی یا نہیں۔
پوليس نے ’مارچ فار ڈيموکريسی‘ کہلائی جانے والی اس ريلی پر پابندی لگا رکھی ہے۔ پوليس کو خدشہ ہے کہ يہ ريلی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر حصوں میں بد امنی کا سبب بن سکتی ہے۔ اسی سلسلے ميں مقامی پوليس نے اپوزيشن کے قريب ساڑھے سات سو کارکنوں کو حراست ميں لے رکھا ہے اور دارالحکومت کی طرف جانے والے بس، ريل گاڑی اور نقل و حمل کے ديگر ذرائع کو عارضی طور پر معطل کر ديا گيا ہے۔
بنگلہ ديش کے ايک اہم اپوزيشن رہنما فخرالسلام عالمگير نے دارالحکومت کی صورتحال کو ان الفاظ ميں بيان کيا، ’’ايسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت نے ملک ميں غير اعلانيہ بندش کر رکھی ہے۔‘‘ انہوں نے اپوزيشن کے حاميوں پر زور ديا کہ وہ ان تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ريلی ميں شرکت کريں۔
واضح رہے کہ بنگلہ ديش ميں سن 1971 کی جنگ آزادی کے دوران جنگی جرائم کے حوالے سے متعدد اسلام پسند سياستدانوں کے خلاف مقدمے چلائے جا رہے ہيں۔ اسی معاملے کی وجہ سے ملک ميں پہلے سے بد امنی کی فضا موجود ہے۔ اِس بدامنی کی وجہ سے رواں برس 273 افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔ اِس طرح رواں برس بنگلہ دیش کی تاریخ کا سب سے خونی سال خیال کیا جا رہا ہے۔
عوامی ليگ سے تعلق رکھنے والی وزير اعظم شيخ حسينہ کی حکومت نے آئندہ جنوری ميں انتخابات کا اعلان کر رکھا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں انتخابات کا انعقاد غیر جانبدار حکومت کے تحت کروانے کا مطالبہ رکھتی ہیں اور حسینہ شیخ کی حکومت یہ مطالبہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ اسی باعث تمام اپوزیشن جماہتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔ اِس بائیکاٹ کی وجہ سے بعض مبصرین اور سیاسی دھڑوں کا خیال ہے کہ پانچ جنوری کے انتخابات ميں دوبارہ عوامی ليگ کی جيت يقينی ہے۔