1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

متنازعہ زمینوں کی الاٹمنٹ، پشتون قبائل برہم

31 دسمبر 2024

افغان سرحد کے قریب بلوچستان کے پشتون علاقوں میں قبائل کی لاکھوں ایکڑ اراضی کی مبینہ الاٹمنٹ پر قبائل حکومت پر شدید برہم ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ohhL
بلوچستان میں چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت سڑکوں کی تعمیر کا کام جاری ہے
پاکستانی حکومت کا موقف ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاروں کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا رہے ہیںتصویر: A. G. Kakar/DW

افغان سرحد سے ملحق بلوچستان کے پشتون علاقوں میں لاکھوں ایکڑ زمینوں کی مبینہ الاٹمنٹ کے خلاف مقامی قبائل کا احتجاج زور پکڑ رہا ہے۔ مقامی قبائل نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ معدنیات سے مالا مال ان کی زمینیں حکومت الاٹمنٹ کے بعد چینی کمپنیوں کے حوالے کرسکتی ہے جسے وہ کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔

بلوچستان کے سابق گورنر ملک عبدالولی خان کہتے ہیں کہ قبائلی زمینوں کی غیرقانونی الاٹمنٹ صوبے کو مذید شورش کی جانب دھکیلنے کی ایک سازش  ہے، جسے ناکام بنانے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ 

ڈی ڈبلیو سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا ، ''بلوچستان کے پشتون بیلٹ میں ہر قبیلے کی اپنی زمینیں ہیں، جن پر ان کی ملکیت صدیوں سے چلی آرہی ہے۔  ان زمینوں کی قواعدوضوابط کے برعکس الاٹمنٹ نہ صرف یہاں کے قدرتی وسائل کے استحصال کا باعث بنے گی بلکہ اس سے اس  پرامن خطے میں عدم استحکام اورافراتفری بھی پیدا ہو گی۔‘‘

ملک ولی کا کہنا تھا کہ پشتون قبائلی زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ کئی تضادات کا شکار ہے، اس لیے تمام مقامی قبائل سراپا احتجاج ہیں۔

 انہوں نے مذید کہا، ''یہاں قبائل کی  ملکیت میں لاکھوں  ایکڑ زمینیں ہیں۔ ان زمینوں کے وسائل پر سب سےپہلا حق مقامی لوگوں کا ہے لیکن حکومتی سطح پر یہ حق تسلیم نہیں کیا جا رہا ہے۔ غیر مقامی افراد اور جعلی ناموں پر زمینوں کی الاٹمنٹ کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ مرکزی سطح پر بعض غیرمقامی پارلیمنٹیرینز   نے بھی یہاں کی زمینیں قواعدو ضوابط کے برعکس ہتھیانے کی کوشش کی ہے ۔‘‘

پشتون قبائلی زمینوں کی الاٹمنٹ کا معاملہ  تضادات کا کیوں شکار ہے؟

قبائلی زمینوں کی متنازعہ الاٹمنٹ کے خلاف بننے والی ضلع پشین کے اولسی کمیٹی کے رکن نصراللہ خان کہتے ہیں، ''معدنیات سے مالا مال زمینیں بعض فرضی ناموں پر بھی  الاٹ کی گئی ہیں۔‘‘

انہوں نے مذید کہنا تھا، ''اس خطے میں متنازعہ سرمایہ کاری سے متعلق عوامی تحفظات پر حکومت کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے۔ پی ایم ڈی سی نے جس منصوبے  پر کام شروع کیا ہے، اس کے تحت  برشور  توبہ کاکڑ ی میں ایک لاکھ 23 ہزار ایکڑ زمین قواعدو ضوابط کے برعکس الاٹ کرنے  کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس معاملے میں اصل اسٹیک ہولڈر ہونے کے باوجود قبائل کوکسی بھی سطح پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔‘‘

نصر اللہ خان کا کہنا تھا کہ پشتون  قبائل کی ملکیت میں  شامل ایسی  زمینیں بھی کمرشل  مقاصد کے لیے الاٹ کی جا رہی ہیں، جہاں  پہاڑ، ڈیم اور مقامی آبادی کے لیے  اسکول وغیرہ قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستان سے علیحدگی کی مسلح تحریک میں شامل بلوچستان لبریشن آرمی کا ایک گروپ
بلوچستان میں پاکستان سے علیحدگی کی مسلح تاریخ بھی چل رہی ہے اور آئے دن پرتشدد واقعات پیش آ رہے ہیںتصویر: Abdul Ghani Kakkar/DW

نصر اللہ خان کے بہ قول،''برشور میں67کلو میٹر قبائلی زمین افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے ۔ یہاں  2475 اسکوائر کلومیٹر پر سرمایہ کاری کے لیے جو منصوبہ تیارکیا گیا ہے، اسے قبائل نے یکسر مسترد کیا ہے۔ توبہ کاکڑ ی میں تغرتو خطے کی 33 ہزار ایکڑ اراضی  قدیم اور نایاب جنگلات پر مشتمل ہے۔ حکومت ان  جنگلات کو بھی تحفظ فراہم کرنے کے بجائے کمرشل مافیا کے حوالے کر رہی ہے۔‘‘

سابق صوبائی مشیر  عظیم خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے حکومتی قول و فعل ہمیشہ سے تضادات کا شکار رہا ہے۔

ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں  نے کہا،'' ترقی اور سرمایہ کاری کے نام پر وسائل کی لوٹ مار کا سلسلہ طویل عرصے سے بلوچستان میں جاری ہے۔ جب چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور منصوبہ شروع کیا گیا تو اس وقت بھی صورتحال ایسی ہی تھی۔ سی پیک سے بلوچستان کو اب تک ایسا کوئی فائدہ نہیں ملا ہے، جس کی حکومت دعوے کرتی رہی ہے۔‘‘

عظیم خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کے حامل منصوبے ریکوڈک اور سیندک کی طرح  پشتون بیلٹ بھی متنازعہ سرمایہ کاری سے کبھی مستفید نہیں ہوسکتا۔

غیرملکی سرمایہ کاری اور عوامی تحفظات پر حکومتی موقف کیا ہے ؟

بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے نائب چیرمین  بلال خان کہتے ہیں کہ صوبے میں  غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا حکومت کی ترجیہات کا ایک اہم حصہ ہے  اس لیے مختلف منصوبوں پر کام کیا جا رہا ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے خصوصی حکمت عملی پر کام کر رہے ہیں۔ قدرتی وسائل سے مالامال صوبے میں کوئلہ، تانبا، سونا، قدرتی گیس اور دیگر معدنیات کی تلاش کے لیے مختلف کمپنیوں نے سرمایہ ماریہ کاری کی خواہش ظاہر کی ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کو محفوظ اور سازگار ماحول فراہم کرنے کے لیے حکومت بھرپور طریقے سے کام کر رہی ہے۔‘‘

پاکستانی بازاروں میں ’میڈ ان چائنا‘ مصنوعات کی دھوم

بلال خان کا کہنا تھاکہ بلوچستان میں ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے سرمایہ کاروں کو مسابقتی مراعات، ٹیکسز میں وقفے، سبسڈیز اور منظم ریگولیٹری عمل کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔

ان کے بقول، ''بلوچستان انویسٹمنٹ بورڈ سرمایہ کاری کے منصوبوں میں شفافیت یقینی بنانے پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاروں کےلیے ایساماحول بنایا جا رہا ہے تاکہ ان کے تنازعات موثر طریقے سے حل ہو سکیں اور انہیں بین الاقوامی قانون تک رسائی حاصل ہو۔

بلال خان کا کہنا تھا کہ پشتون علاقوں میں سرمایہ کاری سے متعلق سامنے آنے والے عوامی خدشات کا حکومت سنجیدگی سے جائزہ لے رہی ہے اور براہ راست سرمایہ کاری صوبے کی ترقی کے لیے سنگ میل ثابت ہوگی۔