1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بس یہی فکر ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

11 دسمبر 2021

ماں باپ کا اولاد کے لیے بے لوث پیار یوں تو کسی کی رائے اور دخل اندازی کی گنجائش نہیں چھوڑتا مگر ہم اکثر اپنے اردگرد بسنے والے لوگوں کی سوچ کو اس پیار پر بھی حاوی ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/447tk
Blogerin Sana Zafar
تصویر: Privat

ہم چھوٹی چھوٹی خوشیوں، خوابوں، جذبات، رہن سہن، تعلیم  حتیٰ کہ  نوکری سے لے کر شادی بیاہ اور ہر ذاتی فیصلے تک میں لوگوں کی قبولیت کو ہی سند سمجھتے ہیں۔ تان ہمیشہ یہاں آ کر  ٹوٹتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے؟

یہ سوچ ہمارے معاشرے پر کتنا گہرا اثر رکھتی ہے، اس کی اکثر بہت دلچسپ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جیسے کہ سماجی طبقے سے قطع نظر تقریباً ہر گھر میں ڈرائنگ روم ( مہمان خانہ) سب سے صاف رکھا جاتا ہے، جس میں سارے گھر میں سے سب سے قیمتی اور آرام دہ فرنیچر وغيره شامل ہے۔ پیچھے یہی سوچ کارفرما ہے کہ مہمان آپ کی مالی حیثیت کا اندازہ تو ضرور لگائیں گے اور ان کے طے کردہ معیار پر پورا نہ اترے تو لوگ کیا کہیں گے؟

اسی طرح سب سے مہنگے، خوبصورت اور نازک برتن ہمیشہ ایک شیشے کی الماری میں سجے رہتے ہیں اور کسی گھر والے کو ان کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ البتہ گھر والے پلاسٹک کے پرانے برتن بخوشی استعمال کر سکتے ہیں۔ آپ اسے مہمان نوازی کہیں یا کنجوسی، ہر حال میں مہمانوں کو ہی نایاب چیز استعمال میں لانے کا حق حاصل ہے۔

 لباس، جوتے، زیور، بناؤ سنگار سب ہی مثالیں اس رویے سے مطابقت رکھتی ہیں۔ اپنی استطاعت سے بڑھ کر رہن سہن سے لے کر  بچوں  کی تعلیم تک میں معاشرتی سند کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے۔ سوچ یہی ہے کہ مہنگا اور پرائیویٹ سکول ہونا چاہیے اور کپڑے برینڈڈ نہ پہنے تو لوگ کیا کہیں گے؟

یہاں تک تو دکھاوا شاید کچھ حد تک بے ضرر ہے۔ مسائل تب پیدا ہوتے ہیں، جب لوگوں کی باتوں کا ڈر ہمارے اپنوں کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ حائل کرنے لگتا ہے۔ جیسے کہ بیٹی کی تعلیم کتنی ہو اور کس ادارے سے حاصل کی جائے؟ مخلوط نظام تعلیم بہت سے گھروں میں بحث کا سبب بنتا ہے کیونکہ بیٹی کے کردار سے لے کر اس کی قابلیت پر اعتبار سے زیادہ اکثر یہ سماجی دباؤ بازی لے جاتا ہے کہ اگر لڑکوں کے ساتھ پڑھی تو لوگ کیا کہیں گے؟

 یہ دباؤ مختلف طبقوں میں مختلف اہمیت رکھتا ہے مگر بہرحال پایا ضرور جاتا ہے۔ لوگوں کے ان طعنوں کا خوف کہ تعلیم مکمل کر کے فوراً شادی کر لی تو ماں باپ کا پیسہ کیوں ضائع کیا؟ فوراً شادی نہیں کی؟ عمر نکل جائے گی کیوں نہیں کی؟ شادی کے بعد نوکری کی تو گھر بار کون دیکھے گا؟ اگر نوکری نہیں کی تو کیا فائدہ ایسی تعلیم کا؟ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لوگ کیا گیا کہیں گے، اس میں خاطر خواہ اضافہ صرف خاتون ہونے سے ہی ہو جاتا ہے۔

اسی طرح بات جب رشتہ طے کرنے کی بات ہو تو خاندان میں شادی، ماں باپ کی مرضی سے شادی، پوتا دیکھنے کے شوق میں شادی، کسی ناراض رشتے دار کو منانے کے لیے شادی وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب لوگوں کے کچھ کہنے کے ڈر کو ہی مدنظر رکھ کر طے پاتا ہے۔ چاہے اس دوران کتنے ہی ارمان، ترجیحات، سوچ اور شوق کچلے جائیں، اس کی کسی کو پروا نہیں۔ پروا بس یہ ہے کہ لوگ کیا کہیں؟

ذاتی زندگی میں بھی لوگوں کی رائے گہرا اثر رکھتی  ہے۔ جیسے کہ گھر کے کاموں میں ساتھ دینے سے لے کر اپنی ہی اولاد کے کچھ کاموں کی ذمہ داری لینے والے مرد حضرات کے لیے مختلف القاب مقرر کیے جاتے ہیں۔

یہ تو کچھ سطحی سی مثالیں ہیں لیکن آپ جتنی گہرائی میں جاتے جائیں گے، آپ کو اندازہ ہو گا کہ لوگوں کی رائے کس حد تک ہماری زندگیوں میں رچ بس چکی ہے اور ہم نے دوسروں کی رائے کو اپنی زندگیوں کا ایک بہت اہم جزو سمجھ لیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ پہچان سکیں کہ آخر یہ لوگ کون ہیں، جو کچھ نہ کچھ کہتے ہی رہتے ہیں؟ ایسا تو نہیں کہ ہم خود بھی وہی لوگ ہیں؟ ہو سکتا ہے ہماری بے جا تنقید اور دوسروں کی ذاتی زندگیوں میں دخل اندازی کسی کی دل آزاری کر رہی ہو اور کہیں کسی نوجوان کے آگے بڑھنے کے خوابوں کو ابدی نیند سلا رہی ہو؟

یا ہم وہ لوگ تو نہیں، جو دوسروں کی رائے کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اپنوں کی ہی ذہنی آسودگی کے دشمن بن جاتے ہیں؟ کہیں ہم وہ لوگ تو نہیں، جو اپنی اولاد کی خوشیاں نظر انداز کر کے خود معاشرے میں قبولیت ڈھونڈنے میں مصروف ہیں؟ ذرا سوچیں! دوسروں کی زندگیوں میں بے جا دخل اندازی نہ کرتے ہوئے ہم کتنی آسانیاں بانٹ اور حاصل کر سکتے ہیں؟