’بریکنگ دی آئس‘: فلسطین، اسرائیل دوستی کی کوشش
13 جنوری 2014فلسطین اور اسرائیل کے کوہ پیما تیس دن کی مسافت کے بعد سولہ جنوری 2004ء کو انٹارکٹیکا کی ایک چوٹی سر کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ چوٹی کو سر کرنے کے فوراﹰ بعد تقریباﹰ آدھا گروپ مکّہ کی طرف رخ کرتے ہوئے سجدہ ریز ہو گیا تھا جبکہ دیگر اسرائیلوں کی طرف سے خوشی میں شیمپین کی ایک بوتل کھولی گئی تھی۔ اس مشترکہ مہم جوئی کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ فلسطینی اور اسرائیلی پرامن طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکتے ہیں اور اس پروجیکٹ کا نام ’بریکنگ دی آئس‘ رکھا گیا تھا۔ اس وقت چار اسرائیلیوں اور چار فلسطینوں نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا تھا، ’’ہم نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی اور اسرائیلی باہمی احترام ، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور مفاہمت کی کوشش کر سکتے ہیں۔‘‘
رملہ میں رہنے والے فلسطینی کوہ پیما سلیمان خطیب آج دس برس بعد بھی اس مہم کے یادگار لمحات کو نہیں بھول پائے ہیں۔ بیالیس سالہ خطیب کا کہنا تھا کہ وہ مہم ایک بہترین مثال تھی اس بات کی کہ ایک دوسرے کو معاف کرنے سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سلیمان خطیب اپنی جوانی میں اسرائیل کے خلاف آزادی کی جنگ بھی لڑتے رہے ہیں۔ انہیں ایک اسرائیلی فوجی کو زخمی کرنے کے الزام میں دس برس جیل میں بھی گزارنے پڑے، جہاں انہوں نے عبرانی، انگریزی، ادب اور تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔ خطیب اس بارے میں کہتے ہیں، ’’یہی وہ وقت تھا، جب میں نے خود میں تبدیلی محسوس کی۔‘‘
دوران قید سوچ میں تبدیلی
اپنی رہائی کے بعد 1997ء میں خطیب دوسری انتفادہ تحریک کے دوران غیر متشدد طریقے سے مزاحمت کرتے رہے۔ اسی دوران انہوں نے ایک اسرائیلی باشندے گاڈی کینی کے ساتھ مل کر ’پیپلز پیس فنڈ‘ تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہ وہ پہلی فلسطینی اسرائیلی فاؤنڈیشن تھی، جس کا مقصد مشرق وسطیٰ امن عمل کے لیے کوششیں کرنا تھا۔ سلیمان خطیب کہتے ہیں، ’’ اگر میں نے مہم جوئی میں حصہ نہ لیا ہوتا تو شاید آج یہ تنظیم بھی نہ ہوتی۔ مجھے اس وقت ’بریکنگ دی آئس‘ میں شمولیت کے لیے دعوت دی گئی تھی۔ تاہم میرے ملے جلے جذبات تھے۔ یہ سفر پہلا موقع تھا پرامن حالات میں کسی اسرائیلی سے ملاقات کا۔ میرے کئی دوست اسرائیل کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے تھے اور یہی وجہ تھی کہ میرا ردعمل ملا جلا تھا۔‘‘
برکینگ دی آئس پروجیکٹ کی بنیاد جرمنی میں رہنے والے اسرائیلی ہیسکل ناتھانیل کی طرف سے رکھی گئی تھی۔ وہ اسرائیل کی طرف سے لازمی فوجی ٹریننگ بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ہیسکل ناتھانیل کہتے ہیں، ’’سلیمان نے میرے دل میں فوری طور پر جگہ بنا لی تھی۔ وہ بہت ہی پیارا شخص ہے۔ اس کی حس مزاح بہت اچھی ہے اور وہ ایک زبردست شخصیت کا مالک ہے۔‘‘
چوٹی سر کرنے کے بعد سے اکاون سالہ ہیسکل ناتھانیل بھی دونوں ملکوں کے مابین امن کے لیے کوشاں ہے، جہاں سلیمان نے اپنی تنظیم بنا رکھی ہے، وہاں ناتھانیل بھی ’بریکنگ دی آئس‘ کے جھنڈے تلے مختلف پروگراموں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔
اسی طرح سن 2006ء میں بھی انٹارکٹیکا کی ایک چوٹی سر کرنے کے لیے ایک مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس مہم میں یہودیوں اور مسلمانوں کے علاوہ عیسائی بھی شامل تھے۔
مہم سے متعلق مثبت آراء
صحافی ٹورسٹن سیونگ بھی ’بریکنگ دی آئس‘ کا اہم حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے منصوبوں کا حصہ رہنے والے زیادہ تر افراد نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’ہماری ایک مہم کا حصہ رہنے والے جافو نامی اسرائیلی نے تل ابیب میں ایک ریستوران کھولا ہے، جہاں اسرائیلی اور عربی دونوں اقسام کے کھانے دستیاب ہیں۔ ’بریکنگ دی آئس‘ کے لیے کام کرنے والے ٹورسٹن سیونگ کا کہنا ہے کہ چلی میں تقریباﹰ تین لاکھ فلسطینی رہتے ہیں اور ان کا وہاں کے یہودیوں کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں تھا۔ اس پروجیکٹ کے بعد وہاں کے ایک یہودی رہنما نے اسی طرح کے ایک ’بریکنگ دی آئس‘ منصوبے کا اغاز کیا۔ ہیسکل ناتھانیل کو یقین ہے کہ ایک دن اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن قائم ہو جائے گا۔